دنیا

’زخم چھپانے کیلئے بچی کو حجاب پہنایا گیا‘، سارہ شریف قتل کیس میں استغاثہ کے دلائل

سارہ شریف نے 2023 کے آغاز میں ہی حجاب پہننا شروع کیا تھا اور ممکنہ طور پر سر ڈھانپنے کا فیصلہ اپنے زخموں کو چھپانے کیلئے کیا گیا، پراسیکیوٹر املن جونز

سارہ شریف قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوسرے روز لندن کے اولڈ بیلی کورٹ میں استغاثہ کی جانب سے نئے انکشافات کیے گئے ہیں، عدالت کو بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر 10 سالہ سارہ کے زخم چھپانے کے لیے اسے حجاب پہنایا گیا ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لندن کی اولڈ بیلی عدالت میں سارہ کے 42 سالہ والد عرفان شریف، اس کی 30 سالہ سوتیلی والدہ بینش بتول اور 29 سالہ چاچا فیصل ملک کے خلاف سارہ شریف کے قتل کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔

تینوں ملزمان نے گزشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ سرے میں اپنے گھر میں قتل ہونے والی سارہ شریف کے مقدمے میں استدعا کی ہے کہ وہ بے قصور ہیں، مقدمے کی سماعت 7 ہفتوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

پراسیکیوٹر املن جونز نے عدالت کو بتایا کہ سارہ شریف نے 2023 کے آغاز میں ہی حجاب پہننا شروع کیا تھا اور ممکنہ طور پر سر ڈھانپنے کا فیصلہ گھر پر ہونے والے تشدد کے نتیجے میں آنے والے زخموں کو چھپانا تھا۔

استغاثہ نے اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے سارہ کے ٹیچر کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جنہوں نے جون 2022 اور مارچ 2023 میں سارہ کے چہرے پر زخم کے نشانات دیکھے تھے۔

سارہ کی ٹیچر نے اپنے بیان میں کہا کہ بچی سے جب ان زخموں کے بارے میں پوچھا جاتا تو فوراً شرما جاتی اور ان زخموں کو چھپانے کے لیے اپنے حجاب کو اوپر کی جانب کھینچ دیتی۔

استغاثہ نے عدالت میں بتایا کہ پلاسٹک کے کچھ تھیلیوں پر سارہ کے خون کے نشانات بھی پائے گئے ہیں ممکنہ طور پر ان پلاسٹک کے تھیلوں سے ’گھر میں ہڈز‘ بناکر سارہ کے سرکے زخم چھپانے کے لیے استعمال کیے گئے ہوں۔

عدالت کو بتایا گیا ’سارہ کی سوتیلی ماں بتول نے مبینہ طور پر ایک ماہ کے دوران پارسل ٹیپ کے 18 رول خریدے تھے اور اسی ماہ میں بچی کی موت ہوئی تھی‘۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا گیا کہ ان گھریلو ہڈز پر سارہ کے والد عرفان شریف کی انگلیوں کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔

گزشتہ سماعت کا احوال:

گزشتہ روز ہونے والی کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ سارہ شریف کے والد نے فون کال پر اعتراف جرم کرتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ اس نے بیٹی کو ’قانونی طریقے سزا‘ دی تھی جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔

عدالت کو بتایا گیا ’بچی کے قتل کے روز ہی سارہ کے والد اپنی بیوی اور بھائی کے ہمراہ پاکستان چلے گئے اور پھر اگلے ہی دن سارہ شریف کے والد نے پاکستان سے 999 پر فون کال کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے قتل کا اعتراف کیا۔

’اپنے اعتراف جرم میں انہوں نے کہا میں نے اسے مار مار کر قتل کردیا، حالانکہ میرا ارادہ اسے مارنے کا نہیں تھا لیکن بہت زیادہ تشدد کی وجہ سے وہ مرگئی‘۔

استغاثہ کے مطابق پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس وقت سارہ کی لاش کے آگے عرفان شریف کا لکھا ہوا ایک خط بھی موجود تھا جس میں انہوں نے قتل کا اعتراف کیا۔

نوٹ میں لکھا تھا ’میں عرفان شریف ہوں جس نے اپنی بیٹی کو مار مار کر قتل کیا، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن میں نے اسے کھو دیا‘۔

خط میں انہوں نے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈر کر بھاگ رہے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کیس کا پس منظر:

واضح رہے کہ سارہ شریف کی لاش گزشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی جس سے ایک ہی دن قبل ان کے اہل خانہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔ سارہ کے والد عرفان شریف، ان کی اہلیہ بینش بتول اور عرفان کے بھائی فیصل ملک پولیس کو اس وقت سے مطلوب تھے۔

گزشتہ سال ستمبر میں برطانیہ میں بچی کے قتل کے الزام میں والد، سوتیلی ماں اور چچا کو گرفتار کرنے کے بعد مقامی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جن کو عدالت نے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

سارہ شریف کے قتل میں ملوث ان کے والد، سوتیلی ماں اور چچا لاش برآمد ہونے سے قبل پاکستان پہنچ گئے تھے جن کو دبئی سے گرفتار کرنے کے بعد برطانیہ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

اس سماعت سے 2 روز قبل ہی تینوں ملزمان کو پاکستان میں ایک ماہ گزارنے کے بعد دبئی کی پرواز سے اترتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔