پاکستان

لاہور: طالبہ سے مبینہ زیادتی کےخلاف دوسرے روز بھی احتجاج

طلبہ و طالبات کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے پنجاب اسمبلی تک ریلی، مظاہرین کا طلبہ، انسانی حقوق کے نمائندوں اور ججز پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ
|

لاہور کے نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی کے خلاف طلبہ و طالبات نے مسلسل دوسرے روز بھی احتجاج کیا۔

صوبائی دارالحکومت میں گزشتہ روز پرتشدد مظاہروں میں 28 طلبہ کے زخمی ہونے کے بعد دی پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے پنجاب اسمبلی تک انسداد ہراسانی ریلی کا انعقاد کیا جس میں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

واضح رہے کہ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے آج پنجاب اسمبلی کے اجلاس کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے جو 48 گھنٹے میں رپورٹ دے گی۔

اتوار کو سوشل میڈیا پر واقعے کی خبر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ایک سیکیورٹی گارڈ کو گرفتار کیا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم گرفتار کیا جاچکا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔

تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست نہ دیے جانے کے باعث واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تاحال درج نہیں کی جاسکی ہے۔

دوسری جانب پنجاب پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کردہ پوسٹ میں کہا ہے کہ ’اگر کسی کے پاس لاہور میں ہونے والے مبینہ ریپ کے حوالے سے کوئی معلومات ہے تو وہ 15 یا وومین سیفٹی ایپ کے ذریعے حکام کو فوری طور پر آگاہ کرے۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کے حوالے سے اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

نجی کالج میں طلبہ اور حفاظتی عملے میں تصادم

ریسکیو 1122 نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حفیظ سینٹر پر واقع نجی کالج کے کیمپس میں طلبہ اور حفاظتی عملے کے درمیان تصادم بھی ہوا۔

منگل کو پی ایس سی کی جانب سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے پنجاب اسمبلی تک ریلی نکالی گئی، ریلی کے شرکا نے پنجاب کالج ریپ کیس اور لاہور ویمنز کالج میں ہراسانی کے واقعات کے خلاف گزشتہ روز کیے گئے احتجاج کے دوران طلبہ پر کیے گئے تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے واقعات کی تحقیقات کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبہ نمائندوں اور ججز پر مشتمل کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں میں انسداد ہراسانی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں طلبہ بالخصوص طالبات کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔

مظاہرین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ہراسانی سے متعلق قوانین کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم شروع کی جائے اور اس حوالے سے رہنما اصولوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

سی سی ٹی وی کے ریکارڈ میں کچھ نہیں ملا، کالج انتظامیہ

دریں اثنا نجی کالج کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز نے مبینہ ریپ کیس کے حوالے سے جاری وڈیو پیغام میں کہا کہ ’ہم نے سی سی ٹی وی کے ریکارڈ کی جانچ کی ہے لیکن ہمیں کچھ نہیں ملا، ہم بذات خود کئی پولیس اسٹیشنز میں گئے لیکن وہاں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پولیس ہمارا سی سی ٹی وی کا تمام ریکارڈ لے گئی ہے‘، ان کا مزید کہنا تھا کہ کالج انتظامیہ نے بیماری یا دیگر وجوہات کے باعث کالج سے غیر حاضر کئی طلبہ کو فون کالز بھی کیں۔

کالج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ہسپتال کا نام لیا جارہا تھا، ہم نے کئی ہسپتالوں کو چیک کیا لیکن کچھ نہیں ملا، انہوں نے کہا کہ طلبہ کیمرا فوٹیجز کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن تمام ریکارڈنگز پولیس کے پاس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’طلبہ کا کہنا ہے کہ مبینہ زیادتی کے واقعے کے وقت بیسمنٹ کا دروازہ بند تھا لیکن گلبرگ کیمپس کے بیسمنٹ میں کوئی دروازہ موجود ہی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بیسمنٹ کا داخلی راستہ ہر وقت کھلا رہتا ہے کیونکہ وہاں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پولیس نے چھٹیوں پر گئے ہوئے ایک سیکیورٹی گارڈ کو طلب کیا ہے اور وہ اب تک حراست میں ہے، انہوں نے کہا کہ گارڈ کو صرف اس وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی کو احتجاج سے نہیں روک رہے، صرف شرپسندوں کو روکنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر کسی لڑکی یا خاندان کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔