دنیا

عالمی سرکاری قرض پہلی مرتبہ ہزار کھرب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے، آئی ایم ایف

عالمی سرکاری قرض صرف 3 سالوں میں 115 فیصد تک پہنچ سکتا ہے جو کہ موجودہ تخمینوں سے 20 فیصد زیادہ ہے، رپورٹ

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ رواں سال دنیا کا مجموعی سرکاری قرض پہلی مرتبہ ہزار کھرب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے اور اس کی رفتار پیش گوئیوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ سکتی ہے، کیونکہ سیاسی جذبات اضافی اخراجات کے حق میں ہیں اور سست شرح نمو قرض لینے کی ضرورت اور اخراجات کو بڑھا دیتی ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق آئی ایم ایف کی تازہ مالیاتی مانیٹر رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 2024 کے اختتام تک عالمی عوامی قرض مجموعی عالمی مقامی پیداوار (جی ڈی پی) کے 93 فیصد پر پہنچ جائے گا اور 2030 میں اس کے 100 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔

واشنگٹن میں عالمی بینک اور عالمی مالیاتی ادارے کے سالانہ اجلاس سے قبل جاری کی گئی مالیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرنے کی کافی وجوہات موجود ہیں کہ عالمی قرض کی شرح موجودہ اندازوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھے گی کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا میں زیادہ خرچ کرنے کی خواہش موجود ہے۔

آئی ایم ایف نے رپورٹ میں کہا کہ ’مالیاتی پالیسی کی بےیقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس کے حوالے سے سیاسی پابندیاں مزید مضبوط ہوگئی ہیں‘۔

رپورٹ کے مطابق ’گرین ٹرانزیشن، آبادی کی بڑھتی عمر، سیکیورٹی خدشات اور دیرینہ ترقی کے چیلنجز سے نمٹنے کے باعث اخراجات پر دباؤ بڑھ رہا ہے‘۔

عالمی قرض کی سطح میں اضافے سے متعلق آئی ایم ایف کے خدشات امریکی انتخابات سے 3 ہفتے قبل سامنے آئے ہیں جن میں دونوں صدارتی امیدواروں نے نئے ٹیکس نہ لگانے اور اخراجات میں اضافے کے وعدے کیے ہیں جس کے باعث امریکی خسارے میں کھربوں ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

امریکا میں بجٹ پر کام کرنے والے تھنک ٹینک کمیٹی فار اے رسپانسیبل فیڈرل بجٹ’(سی آر بی ایف ) کے مطابق ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس میں تخفیف کے منصوبے سے 10 سال میں قرضوں میں 750 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوگا جو کہ نائب صدر اور ڈیموکریٹک صدارتی امیدار کاملا ہیرس کے ٹیکس میں تخفیف کے 350 کھرب ڈالر کے مجوزہ منصوبے سے دوگنا ہے۔

رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ قرضوں کے تخمینے حقیقی نتائج کو بڑے فرق سے کم کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، جی ڈی پی کے مقابلے میں قرض کی شرح 5 سال قبل لگائے گئے اندازوں سے 10 فیصد زیادہ ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کمزور نمو، سخت مالیاتی حالات اور امریکا اور چین جیسی انتظامی طور پر اہم معیشتوں میں مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کی بےیقینی صورتحال سے قرض میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں ان عوامل پر مشتمل ایک ’شدید منفی منظرنامہ‘ شامل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سرکاری قرض صرف تین سالوں میں 115 فیصد تک پہنچ سکتا ہے جو کہ موجودہ تخمینوں سے 20 فیصد زیادہ ہے۔

آئی ایم ایف نے ایک مرتبہ پھر مزید مالی استحکام کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ٹھوس نمو اور بیروزگاری میں کمی کے ساتھ موجودہ ماحول کر گزرنے کا مناسب وقت ہے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ 2023 سے 2029 تک کے عرصے میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے ساتھ موجودہ کوششیں قرضوں میں کمی یا استحکام لانے کے لیے ناکافی ہیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے 3.8 فیصد کے مجموعی سخت اقدامات درکار ہیں تاہم امریکا، چین اور دیگر ممالک جہاں جی ڈی پی میں استحکام کی پیش گوئی نہیں کی جاتی، خاصی حد تک زیادہ مالیاتی سختیوں کی ضرورت ہے۔

کانگریس کے بجٹ آفس کے مطابق امکان ہے کہ امریکا رواں ماہ 18 کھرب ڈالر کے مالیاتی خسارے 2024 کی رپورٹ جاری کرے گا جو کہ جی ڈی پی کا 6.5 فیصد ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جنوبی افریقہ اور برازیل سمیت وہ ممالک جہاں قرضوں میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، سنگین نتائج کا سامنا کر سکتے ہیں۔