پاکستان

پشاور ہائیکورٹ: آئینی ترمیم، پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں جسٹس ارشد علی اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل 3 رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا۔
|

پشاور ہائی کورٹ نے موجوزہ آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف 3 آئینی درخواستوں پر سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں جسٹس ارشد علی اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل 3 رکنی لارجر بینچ بنایا گیا ہے۔

بینچ مجوزہ آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے علاوہ سینیٹ انتخابات کے لیے درخواست پر بھی سماعت کرے گا۔

گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے 26 ویں مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست مسترد کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا تھا۔

واضح رہے کہ 10 اکتوبر کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم نے مجوزہ آئینی ترامیم کا مسودہ پبلک کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت میں استفسار کیا تھا کہ آئین میں کہاں ہے کہ ترامیم کا مسودہ پبلک کیا جائے گا؟

پشاور ہائیکورٹ نے دائر درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل دفتر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا تھا۔

چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا تھا کہ اسی نوعیت کے اور کیسز بھی ہیں، اس کے ساتھ ان کو بھی سنیں گے، ہوسکتا ہے ان کیسز کے لیے ہم لارجر بنچ بھی تشکیل دیں۔

بعدازاں عدالت نے وفاق اور اٹارنی جنرل آفس کونوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔

اسی طرح 8 اکتوبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس اور مجوزہ آئینی پیکیج کے خلاف ڈسٹرکٹ بار کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا تھا وجوہات بتائیں آئینی ترامیم کو پہلے کیوں چیلنج کیا ہے؟

عدالت نے وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل کونوٹس جاری کردیا تھا اوردرخواست کی سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت آنے والے دنوں میں ایک اہم آئینی ترمیم کی منظوری کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، 16 ستمبر کو آئین میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا تھا۔

کئی دن کی کوششوں کے باوجود بھی آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دی گئی تھی۔

گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے موجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے کہا تھا کہ بڑی کوششوں کے بعد اتفاق رائے کے قریب پہنچ چکے ہیں، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ہمارے مسودے میں ہم آہنگی ہے۔

12 اکتوبر کو مجوزہ آئینی ترامیم پر مشاورت کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے ترامیم سے متعلق سفارشات کی تیاری کے لیے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔

ذیلی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے 2 ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے، کمیٹی 2 روز میں سفارشات مرتب کرکے خصوصی کمیٹی کو دے گی۔