دنیا

26 غریب ترین ممالک 2006 سے بدترین معاشی حالت میں ہیں، عالمی بینک

ان ممالک کا قرض سے جی ڈی پی کا اوسط تناسب 72 فیصد کے ساتھ 18 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔

عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے 26 غریب ترین ممالک 2006 سے بدترین معاشی حالت میں ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اتوار کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 26 غریب ترین ممالک جہاں 40 فیصد افراد غربت زدہ ہیں، 2006 کے بعد سے کسی بھی دور کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں اور قدرتی آفات سمیت دیگر سانحات کے بڑھتے ہوئے خطرے سے دوچار ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان معیشتوں کو کورونا وبا کے دور جیسی غربت کا سامنا ہے جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک اس وبا کے اثرات سے باہر نکل چکے ہیں اور اپنی شرح نمو کو بحال کر چکے ہیں۔

عالمی بینک اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے واشنگٹن میں ہونے والے سالانہ اجلاس سے ایک ہفتے قبل جاری کی گئی رپورٹ انتہائی غربت کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ایک بڑے دھچکے کی تصدیق کرتی ہے اور اس سال عالمی بینک کی جانب سے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے) کے تحت دنیا کے غریب ترین ممالک کے لیے 100 ارب ڈالر جمع کرنے کی کوششوں پر زور دیتی ہے۔

عالمی بینک نے کہا کہ زیر مطالعہ 26 غریب ترین معیشتیں جن کی سالانہ فی کس آمدنی 1145 ڈالر سے کم ہے، آئی ڈی اے کی گرانٹس اور صفر کے قریب شرح سود کے قرضوں پر انحصار بڑھا رہی ہیں کیونکہ مارکیٹ سے مالی معاونت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان ممالک کا قرض سے جی ڈی پی کا اوسط تناسب 72 فیصد کے ساتھ 18 سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور اس گروپ کے نصف ممالک یا تو قرض کی پریشانی میں مبتلا ہیں یا اس کے خطرے سے دوچار ہیں۔

چاڈ سے لے کر کانگو تک کے زیادہ تر زیرمطالعہ ممالک سب صحارا افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں تاہم اس فہرست میں افغانستان اور یمن بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 26 غریب ترین ممالک میں سے دو تہائی یا تو مسلح تنازعات کا شکار ہیں یا انہیں ادارہ جاتی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے امن و امان کو برقرار رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے، جس کے باعث یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات نہ ہونے کے برابر ہے اور انہیں بار بار اتار چڑھاؤ کا سامنا رہتا ہے۔

عالمی بینک کے چیف اکانومسٹ انڈرمٹ گل نے ایک بیان میں کہا کہ ایسے وقت میں جب بیشتر دنیا غریب ترین ممالک کی امداد سے پیچھے ہٹ گئی ہے، آئی ڈی اے ان کی لائف لائن رہی ہے، گزشتہ 5 سال کے دوران تنظیم نے اپنے زیادہ تر مالی وسائل ان کم آمدنی والی 26 معیشتوں پر ہی خرچ کیے ہیں۔

آئی ڈی اے کے فنڈز کو عموماً ہر 3 سال بعد ورلڈ بینک کے شراکت دار ممالک کے تعاون سے بھر دیا جاتا ہے۔ تنظیم نے 2021 میں 93 ارب ڈالر کا ریکارڈ فنڈ اکٹھا کیا اور ورلڈ بینک کے صدر اجے بنگا 6 دسمبر تک 100 ارب ڈالر سے زائد کی یقین دہانیوں کے ساتھ اس سے زائد فنڈ جمع کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔

ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ پچھلی دہائی کے دوران قدرتی آفات نے بھی ان ممالک کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے، 2011 سے 2023 کے درمیان ان ممالک میں قدرتی آفات سے نقصان کا اوسط تناسب جی ڈی پی کے 2 فیصد تھا، جو کم متوسط ​​آمدنی والے ممالک میں اوسط سے پانچ گنا زیادہ ہے اور سرمایہ کاری کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ معیشتیں جن میں غیر رسمی شعبوں کی اکثریت ٹیکس نظام سے باہر کام کر رہی ہے، انہیں اپنی مدد کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے ان معیشتوں کو ٹیکس دہندگان کے اندراج اور ٹیکس کے نظام کو آسان بنانے کے علاوہ عوامی اخراجات کی صلاحیت کو بہتر بنا کر ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔