پاکستان

لاہور: طالبہ کے مبینہ ریپ کے خلاف احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور جھڑپوں میں 27 افراد زخمی

طلبہ نے کالج کے باہر احتجاج میں انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا، وزیر تعلیم کی یقین دہانی پر طلبہ منتشر، نجی کالج کی رجسٹریشن معطل کر دی گئی۔

لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے خلاف کالج کے کیمپس کے طلبہ کا احتجاج پرتشدد شکل اختیار کر گیا، جلاؤ گھیراؤ اور تصادم کے نتیجے میں27 افراد زخمی ہو گئے جبکہ محکمہ تعلیم نے نجی کالج کی رجسٹریشن معطل کردی۔

گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور ان الزامات پر ایک سیکیورٹی گارڈ کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔

واقعے کے خلاف نجی کالج کے گلبرگ کیمپس کے باہر طلبہ کی بڑی تعداد نے مظاہرہ کیا اور متاثرہ طالبہ کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ زیر تعلیم طلبہ کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور اس دوران انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔

گلبرگ میں ہونے والا یہ احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد شکل اختیار کر گیا، طلبہ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کرنے کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے، کتابوں اور گیٹ کے داخلی رجسٹر کو پھاڑ دیا اور نجی کالج کے گیٹ توڑ ڈالے۔

اس دوران اسکول کے سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے کچھ طلبہ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جبکہ کچھ طالبات کو کلاسز میں بند کردیا گیا جس سے ان کی طبیعت بگڑ گئی اور اس تمام پیشرفت سے احتجاج کرنے والے طلبہ مزید بپھر گئے۔

طلبہ نے کالج کے فرنیچر کو روڈ پر رکھ کر آگ لگا دی اور سینکڑوں کی تعداد میں طلبا و طالبات کے احتجاج کے سبب اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا۔

وزیر تعلیم کی طلبہ کو یقین دہانی

اس دوران حالات پر قابو پانے کے لیے اینٹی رائٹس پولیس کا دستہ بھی کالج پہنچ گیا اور انہوں نے نجی کالج کے باہر سے طلبہ کو منتشر کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لے لیا۔

اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نجی کالج پہنچ گئے اور احتجاج کرنے والے طلبہ کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔

وزیر تعلیم سے گفتگو کے دوران طلبہ نے پولیس کی جانب سے تشدد کی شکایت کی جس پر رانا سکندر نے پولیس کو لاٹھی چارج نہ کرنے کی ہدایات کردی۔

انہوں نے طلبہ کو یقین دہانی کرائی کہ جنہوں نے ثبوت ڈیلیٹ کیے ان اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی، طلبہ پُرامن احتجاج کریں، میں بھی ساتھ دوں گا۔

وزیر تعلیم کی یقین دہانی پر طلبہ پرامن طریقے سے منتشر ہو گئے۔

کالج کی رجسٹریشن معطل

دریں اثنا، پنجاب حکومت نے کالج کی رجسٹریشن معطل کردی۔

ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن (کالجز) پنجاب نے مزید حکم آنے تک پنجاب کالج برائے خواتین کے رجسٹریشن کو مزید احکامات آنے تک معطل کرنے کا حکم جاری کیا۔

دوسری طرف، پنجاب گروپ آف کالجز کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کالج میں کوئی ریپ کا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں۔

بیان میں مزید کہا گیا’ کالج میں محفوظ اور اچھے ماحول کو یقینی بنانے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔’

ایک اور بیان میں، پنجاب کالج کیمپس 10 کے پرنسپل نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ’غیر مصدقہ منفی پروپیگنڈے‘ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حفیظ سینٹر میں قائم پنجاب کالج کیمپس کے باہر سیکیورٹی حکام اور طلبا کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں 27 افراد زخمی ہوئے جنہیں ریسکیو اہلکاروں نے ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔

تصادم کے نتیجے میں ایک طالب علم شدید زخمی ہوگیا جسے بعد میں سروس ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

تاحال ریپ کے واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی، ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران

بعدازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی آپریشنز) فیصل کامران نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مبینہ متاثرہ بچی اور خاندان کو ڈھونڈنے کی کوشش جاری ہے،سوشل میڈیا پر زیر گردش افواہوں کے برعکس کسی بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں اور کالج انتظامیہ اور طلبا کی مدد سے واقعہ کے حقائق جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام ہسپتالوں کا ریکارڈ اور کالج سی سی ٹی وی ریکارڈنگ چیک کی جا چکی ہے لیکن اب تک کسی مبینہ متاثرہ بچی کی نشاندہی نہیں ہوئی۔

فیصل کامران کے مطابق طلبہ کی کالج کے سیکیورٹی عملے سے مڈبھیڑ میں چند طلبہ کو ہلکی چوٹیں آئیں ہیں اور زخمی طلبہ کو فوری طبی امداد فراہم کی گئی جبکہ لاہور پولیس کالج انتظامیہ اور طلبہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا پر جس سیکیورٹی گارڈ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا وہ پولیس کی حراست میں ہے البتہ کالج کے تمام کیمروں کا ریکارڈ چیک کیا گیا ہے اور تاحال واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ سے مسلسل بات کر رہے ہیں اور کوئی مبینہ متاثرہ بچی کی نشاندہی نہیں کر پایا اور ہم واقعے کے حقائق تک پہنچنے کے لیے طلبہ کی ہر بات کو سن کر تحقیقات کر رہے ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز نے طلبہ سے واقعے کی معلومات کے حوالے سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ واقعے سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات لاہور پولیس کے سوشل میڈیا پر ان باکس کر کے ہماری مدد کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ثبوت ملتے ہی فوراً قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا اور کسی بھی قسم کی پیش رفت کی صورت میں فوراً سب کو مطلع بھی کیا جائے گا۔

اب تک پولیس رپورٹ درج نہیں کی گئی، عظمیٰ بخاری

واقعے سے متعلق رد عمل دیتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز واقعے کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال کی رپورٹ حاصل کررہی ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس واقعے سے متعلق کسی کے پاس بھی مصدقہ معلومات ہیں تو وہ حکومت کے ساتھ شیئر کرسکتا ہے۔

عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ اب تک کسی بھی لڑکی نے پنجاب پولیس سے اس حوالے سے رابطہ نہیں کیا جبکہ آج ایک لڑکی کا نام سامنے آیا تھا تاہم اس نام والی تمام لڑکیوں کے گھر جاکر پوچھ گچھ کی گئی ہے لیکن انہیں ایسی کوئی متاثرہ لڑکی نہیں ملی ہے۔

وزیر اطلاعات نے اس واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس جرم کا ملزم سیکیورٹی گارڈ کل سے پولیس کی حراست میں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شناخت ہونے کے باوجود لوگوں کو متاثرہ کے خاندان کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے پوسٹرز یا تصویریں دکھانے سے گریز کرنا چاہیے۔