پاکستان

ٹیکسٹائل، زراعت پر ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے، آئی ایم ایف کا مطالبہ

یہ شعبہ جات قومی محصولات میں مناسب حصہ ڈالنے میں ناکام رہے اور ناکارہ اور غیر مسابقتی رہتے ہوئے عوامی فنڈز کا بڑا حصہ استعمال کیا، عالمی مالیاتی ادارہ

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبوں کے لیے ترجیحی سلوک، ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر پروٹیکشنز کو فوری طور پر ختم کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے نے اپنی اسٹاف رپورٹ میں مشکلات سے دوچار معیشت پس پردہ عوامل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان دونوں شعبہ جات کو قومی محصولات میں مناسب حصہ ڈالنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور قرار دیا کہ ان شعبوں نے ناکارہ اور غیر مسابقتی رہتے ہوئے عوامی فنڈز کا بڑا حصہ استعمال کیا۔

حال ہی میں منظور شدہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے متعلق رپورٹ میں آئی ایم ایف نے زور دیا کہ پاکستان بار بار ’بوم بسٹ سائیکل‘ (معاشی بہتری پھر تنزلی) سے بچنے کے لیے گزشتہ 75 سالوں کے اپنے معاشی طریقوں پر نظرثانی کرنی چاہیے، رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ پاکستان اپنے جیسے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے، اور جمود کی شکار معیشت نے معیار زندگی کو متاثراور 40.5 فیصد سے زیادہ آبادی کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو مزید جدید ترین مصنوعات کی برآمدات میں مشکلات کا سامنا رہا، اور نالج بیسڈ برآمدات کا حصہ کم ہے کیونکہ یہ جدیدت کو فروغ نہیں دے سکا، 2022 تک ’اکنامک کمپلیکسٹی انڈیکس‘ میں پاکستان 85 ویں نمبر پر تھا، 2000 میں بھی یہ اسی درجے پر تھا۔

رپورٹ کے مطابق برآمدات کا جھکاؤ صرف زراعت اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی جانب ہے جبکہ ملک کو جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مصنوعات کی جانب سے اپنے ذرائع منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔

مزید کہا گیا ہے کہ زراعت پر توجہ نے پاکستان کی ٹیکنالوجی پر مبنی جدید اشیا پیدا کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، جبکہ پاکستان کچھ اعلیٰ مصنوعات جیسے ادویات، طبی آلات اور پلاسٹک کی مصنوعات برآمد کرتا ہے، یہ شعبے بہت زیادہ بگڑے ہوئے معاشی ماحول میں کام کرتے ہیں۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی اس کے ذیلی شعبے ویلیو ایڈڈ کی نسبت سب سے زیادہ ٹیکس فرق ہے، 2007 اور 2022 کے درمیان ٹیکسٹائل کے شعبے کو سبسڈی، ان پٹ پر سازگار قیمتیں، رعایتی مالیاتی اسکیمیں دی گئیں، مئی 2024 تک مرکزی بینک کو واجب الادا رعایتی قرضوں میں 70 فیصد حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر سے ہے۔

آئی ایم ایف نے سفارش کی کہ حکومت آئندہ نیشنل ٹیرف پالیسی (29-2025) کے تحت تجارتی پالیسیوں کو آسان بنانے پر توجہ دے، پاکستان پر مزید زور دیا کہ وہ صنعت کاری کو فروغ دینے یا ’ان ایفیشنٹ‘ (اچھی کارکردگی نہ دکھانے والے) شعبہ جات کے تحفظ کے لیے ٹیرف کے استعمال سے گریز کرے، آئی ایم ایف نے دلیل دی کہ ایسی پالیسیاں برآمدات کو کمزور کرتی ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کئی جدید ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات پر پاکستان کو توجہ دینی چاہیے، جن میں شیشے کے برتن، پینٹ، کیمیکل، صنعتی استعمال کے لیے کپڑے، کاغذ، کاسمیٹکس اور ربڑ کی مصنوعات شامل ہیں۔