پاکستان

آئینی پیکج پر ایم کیو ایم کی حمایت لوکل گورنمنٹ کو بااختیار بنانے سے مشروط

گورنر سندھ اور ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کی وزیراعظم سے ملاقات، سفارشات پر مبنی مسودہ پیش کرتے ہوئے اسے حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے حکومت کے آئینی ترمیمی پیکج کے لیے اپنی حمایت کو ملک بھر میں مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے کی حامل شقوں کی شمولیت سے جوڑ دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری، ایم کیو ایم پاکستان کے وفد اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے نمائندوں نے حکومت سے بلدیاتی اداروں کے حوالے سے آرٹیکل 140-اے میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا، پارٹی نے وزیراعظم کو سفارشات پر مبنی ایک مسودہ بھی پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ اسے حکومت کی مجوزہ آئینی ترامیم کا حصہ بھی بنایا جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کا وفد نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار کی قیادت میں مجوزہ آئینی ترامیم پر بات چیت کے لیے کراچی میں قائم ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی دفتر کا دورہ کرے گا۔

ہفتہ کو ہونے والی ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جہاں وزیراعظم آفس کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے وفد میں فاروق ستار اور سید امین الحق شامل تھے۔

ملاقات میں اسحٰق ڈار، وفاقی وزرا احسن اقبال اور اعظم نذیر تارڑ، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ اور سعد رفیق بھی موجود تھے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے تجویز کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ یہ ترامیم بھرپور طریقے سے اثرانداز ہوں گی اور آئین یا کسی بھی قانون، فیصلے یا عدالت کے حکم میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود لاگو ہوں گی۔

تجویز میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 140-اے مقامی حکومتوں کے نظام کے قیام اور سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کے آئین کے حکم کو پورا کرنے میں ناکام رہا، لہٰذا آئین کے اصل مقاصد کو محسوس کرنے کے لیے آئین میں مقامی حکومتوں کے کردار، کاموں، ذمہ داریوں اور اختیارات کو واضح طور پر بیان کرنا ضروری ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 140-اے کی شق 1 میں ترمیم کی جائے گی جسے اس طرح پڑھا جائے گا کہ: ’فیڈریشن بذریعہ قانون، پورے ملک میں ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گی جس کے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کیا جائے گا۔

مجوزہ قانون کا مقصد اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پچاس لاکھ سے زیادہ آبادی والے ہر دوسرے شہر میں میٹروپولیٹن سٹی حکومتیں قائم کرنا ہے۔

اسی طرح، 10 لاکھ سے 50 لاکھ تک کی آبادی والے شہروں میں میونسپل سٹی حکومتیں قائم کی جائیں گی، 5لاکھ سے 10 لاکھ کی آبادی والے شہروں کے لیے میونسپل حکومتیں، ایک لاکھ سے 5 لاکھ کے درمیان آبادی والے علاقوں کے لیے ٹاؤن گورنمنٹ؛ تمام دیہی اضلاع کے لیے ضلعی حکومتیں؛ اور 50 ہزار سے 1ہزار کی آبادی والے قصبوں کے لیے ٹاؤن کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔

شہری علاقوں میں یونین کمیٹیاں، دیہی علاقوں میں یونین کونسلیں، ہر یونین کمیٹی یا کونسل میں وارڈز اور ہر گاؤں میں ویلج کمیٹیاں (پنچایت) ہوں گی، ترمیم کے مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہر مقامی حکومت کی مدت اس کے پہلے اجلاس کی تاریخ سے پانچ سال ہو گی، جب کہ میئر یا چیئرمین کا انتخاب براہ راست ہوگا جبکہ بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل انتخابات کرائے جائیں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان کا مقامی حکومتوں کے اختیارات کے لیے مسلسل دباؤ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مارچ میں ہونے والے معاہدے کے حصے کے طور پر سامنے آیا ہے۔