نقطہ نظر

دی کلائمیٹ بُک: موسمیاتی تبدیلی نظرانداز کرنے کی شرمناک داستان

موسمیاتی قیادت کو فوسل فیول کے مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا اور اس عوامی خام خیالی کو ختم کرنا ہوگا کہ یہ سب کچھ کیا دھرا میری نسل کا نہیں ہے۔

نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


ابتدا میں یہ ایک مسئلہ نہیں بلکہ سائنسی تصور تھا۔ 1896ء کا ذکر ہے کہ سوئیڈن کے ایک کیمیا دان سوانتے ارہینس نے ایک پیش گوئی کی تھی جو آج بہت مشہور ہے کہ کوئلہ جلانے سے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج ہورہی ہے اس کے باعث ہم اپنے سیارے کو کئی ڈگری گرم کردیں گے جس حوالے سے اُس دور میں کسی کو کوئی خاص تشویش نہیں ہوئی۔

اس پیش گوئی کو پوری دنیا میں 1950ء تک نظر انداز کیا جاتا رہا۔ پھر دیگر سائنسدانوں نے بھی کہا کہ دنیا میں بڑھنے والی گرمائش کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ ایک دہائی بعد موسمیات دان سیوکورو منابے نے کمپیوٹر کی مدد سے آب و ہوا کا جائزہ لیا اور اس کی پیش گوئی ارہینس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔

موسمیاتی ماہر، پرنسٹن یونیورسٹی کے جیوسائنسز اور انٹرنیشنل امور کے پروفیسر اور آئی پی سی سی کے طویل عرصے سے مصنف مائیکل اوپن ہائیمر، گریٹا تھیونبرگ کی کتاب ’دی کلائمیٹ بک‘ میں چھپنے والے اپنے مضمون موسمیاتی تبدیلی کی دریافت میں مزید بتاتے ہیں کہ منابے کے بعد سائنسی تحقیق کی ایک نئی لہر اُٹھی جس میں بدلتی آب و ہوا کے سنگین ہوتے نتائج کا بتایا جانے لگا اور 1970ء کی دہائی کے اختتام تک یہ سائنسی اتفاق سامنے آنے لگا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے دگنا ہوجانے سے زمین کی گرمائش کتنی بڑھ جائے گی۔ آئیے مزید تفصیل اُن ہی کی زبانی جانتے ہیں۔

میں نے پہلی بار ٹیکنالوجی ریویو نامی جریدے کے 1969ء کے شمارے میں گرین ہاؤس اثرات کے بارے میں پڑھا تھا تب میں کیمیائی طبیعیات میں گریجویشن کررہا تھا۔ انسان آب و ہوا پر کنٹرول رکھتے ہیں یہ جان کر میں بہت خوفزدہ ہوگیا تھا۔ بتدریج میں نے جانا کہ میں اپنی فکرمندی کو مثبت طریقے سے استعمال کرتے ہوئے سیاست میں اپنی دلچسپی اور زمینی فضا پر اپنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں کردار ادا کرسکتا ہوں۔ یوں 1980ء کی دہائی میں اُن تمام سائنسدانوں کے ساتھ ہوگیا جو خطرے سے خبردار کررہے تھے۔

گرین ہاؤس اثر کے پیچھے بنیادی طبیعیات

عالمی حدت کی وجوہات ایک صدی قبل کے مقابلے میں اب زیادہ واضح ہیں۔ زمین کی فضا بنانے والی گیسیز نائٹروجن اور آکسیجن سورج کی روشنی کے لیے شفاف ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں سورج کی زیادہ تر روشنی فضا سے ہوتی ہوئی زمین کی سطح گرم رکھتی ہے۔ زمین گرم ہونے پر اپنی گرمائش فضا کو واپس کردیتی ہیں۔ تاہم فضا میں پانی کے بخارات اور دیگر گیسیز خاص طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ واپس جانے والی گرمائش کو روک لیتی ہیں جن میں سے کچھ کو دوبارہ زمین کی سطح کی طرف بھیج دیتے ہیں جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

یہ گرین ہاؤس گیسیز ہوتی ہیں کیونکہ وہ فضا میں گرمائش ویسے ہی روکتی ہیں جیسے کہ ہم ایک شیشے کے سبز خانے کا اندرونی درجہ حرارت گرم رکھتے ہیں خواہ باہر کتنی ہی سخت سردی ہو تاکہ خانے کے اندر موجود پودے معمول کے درجہ حرارت میں پھلتے پھولتے رہیں۔ ان گیسوں میں رکے بغیر زمین کی سطح سے پلٹنے والی پوری کی پوری گرمائش اگر سورج کی طرف واپس چلی جائے تو ہمارے سیارے کا درجہ حرارت تقریباً 33 ڈگری سرد ہوجائے گا۔ یعنی یہ فضا کا گرین ہاوس اثر ہے جس نے زمین کا درجہ حرارت قابل رہائش حد تک روکے رکھا ہے تاکہ انسان اور دیگر جاندار دنیا میں زندگی گزار سکیں۔

صنعتی انقلاب کا نتیجہ

19ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے آغاز سے پہلے تک گرین ہاؤس گیسیز کا کام ہزاروں سال تک بالکل ٹھیک چلتا رہا۔ یعنی زمین کو جتنی گرمائش کی ضرورت تھی، اُسے اتنی ملتی رہی۔ کارخانے چلانے کے لیے کوئلے، تیل اور گیس پر مشتمل قدرتی ایندھن جو دسیوں ہزاروں سال پہلے زمین میں دفن ہونے والے پودوں کی باقیات میں ہوتا ہے، کاربن ہوتا ہے۔ قدرتی ایندھن کو کان کنی اور مشینوں کے ذریعے زمین سے نکال کر ہماری فیکٹریوں، توانائی گھروں، موٹر گاڑیوں، ٹریکٹرز، موٹر کشتیوں اور ہوائی جہازوں کو چلانے کے لیے اور ہمارے گھروں اور دفاتر کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قدرتی ایندھن جلنے سے ہر سال دسیوں اربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج ہوتی ہے۔

آبادی میں حد درجہ اضافے کے باعث خوراک کی طلب بھی تیزی سے بڑھتی گئی جسے پورا کرنے کے لیے کھیتی باڑی اور مویشی بانی میں تیزی اور وسعت لانا پڑی اور یوں زراعت بشمول مویشی بانی، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کے اخراج میں اضافے کا باعث بنیں۔

یہ دونوں گرین ہاؤس گیسیز خواہ تھوڑے عرصے کے لیے ہی صحیح مگر زمین پرکاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی زیادہ گرمائش کے اثرات ڈالتی ہیں۔ قدرتی گیس زمین سے نکالنے اور اس کی نقل حمل کی وجہ سے فضا میں میتھین گیس کا اخراج بھی بڑھ گیا ہے۔ کسی روک ٹوک کے بغیر جنگلات کے کٹاؤ اور زمین کے استعمال کے طریقوں میں تبدیلی بھی فضا میں کاربن کا اخراج بڑھنے کا سبب بنی۔ ان تمام انسانی مداخلتوں کے باعث فضا میں کاربن کی سطح صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں 50 فیصد بڑھ چکی ہے۔

گرمائش میں اضافے کا نہ رکنے والا سلسلہ

فضا میں سیکڑوں اربوں ٹن گرین ہاؤس گیسیز کے اضافے کا زمین کے درجہ حرارت پر معتدل اثر پڑتا۔ اگر یہ مزید شدید اثرکی وجہ نہیں بنتا جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا تھا کیونکہ ساری برف پگھل جانے پر درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، اس عمل کو فیڈ بیک لوپ کہتے ہیں۔

گرمائش نے سطح سمندر سے بخارات بننے کے عمل کو تیز کردیا ہے جس سے فضا میں آبی بخارات کی صورت میں گرین ہاؤس گیسیز بڑھ گئی ہیں جس نے درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ آرکٹک برف پگھلنے سے سمندر کی سطح میں زیادہ گرمائش جذب ہورہی ہے کیونکہ پہلے وہاں پر جمی برف گرمائش کم کردیتی تھی۔ نتیجتاً زمین کا درجہ حرارت بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

بادل گرمائش روکتے ہیں اور سورج کی روشنی واپس پلٹا دیتے ہیں لیکن گرمائش کے باعث بادلوں کی تشکیل میں تبدیلی کا اثر بھی ایک فیڈ بیک لوپ ہے جو زمین کو مزید گرم کررہا ہے اور یوں ایسے تمام عوامل زمین کو تین گنا تیزی سے گرم کررہے ہیں۔

زیادہ تشویش اس بات پر بھی ہے کہ جو کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں موجود ہے اُسے صدیوں میں نتیجہ دینے والے بہت سست رفتار طریقے سے سمندر میں جذب کیا جاسکتا ہے جبکہ کچھ ماہرین فضا سے کاربن ختم کرنے کے مصنوعی طریقے بھی تلاش کررہے ہیں لیکن ایسا کوئی طریقہ اب تک نہیں مل سکا ہے جو کارآمد بھی ہو اور استطاعت میں بھی ہو۔

موسمیاتی تبدیلی کو سب سے پہلے کس نے جانا؟

گرین ہاؤس گیسیز کے پیچھے کارفرما بنیادی طبیعیات کی طرح درجہ حرارت کم کرنے کے لیے مطلوب کوششیں اور فوری اقدامات کی ضرورت بڑی حد تک 30 سال پہلے ہی واضح ہوچکی تھی۔ اگر ایسا تھا تو کئی دہائیوں تک ہم نے کیوں کچھ نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سائنسی برادری تو جان گئی تھی کہ کیا ہونے جارہا ہے لیکن سیاستدانوں کو اس معاملے کی نوعیت کے حوالے سے شعور دینا انتہائی مشکل ہے۔

سال 1981ء میں ماحولیاتی دفاعی فنڈ میں بطور سائنسدان میں نے دیگر ماہرینِ ماحولیات، سائنسدانوں اور حکومتوں، سیاستدانوں اور عوام کو اس مسئلے پر بیدار کرنے کے لیے کام شروع کیا لیکن زیادہ تر حکومتوں نے سوچا کہ کیونکہ زیادہ درجہ حرارت کے اثرات واضح نہیں ہوئے ہیں اس لیے کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ کچھ نہ کرنے کے نتائج تب واضح ہونے لگے تھے۔

امریکی اراکین سینیٹ کی عدم دلچسپی

سال 1986ء میں امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے پر بات کرنے میں شریک ہوا جہاں مجھ سے پہلے مختلف حکومتی اداروں کے اہلکاروں نے بات کی جن میں سے زیادہ تر گرین ہاؤس گیسیز فضا میں جمع ہونے کا تدارک کرنے سے بے خبر، لاتعلق اور اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

میں نے درپیش خطرہ واضح کرنے کی کوشش کی اور اُنہیں بتایا کہ اس مسئلے کی روک تھام نہیں کی گئی تو اس کے اثرات ماحول، ماحولیاتی نظام اور تہذیب کی بقا پر شدید ہوجائیں گے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں موجود رہنے کے بارے میں نے انہیں بتایا کہ اس کی فضا میں موجودگی محض فضائی آلودگی نہیں اور ہم اس پر کچھ نہ کرکے نتائج کا انتظار کرنے کے کی قیمت نہیں چکا پائیں گے کیونکہ تب اس کے سنگین نتائج سے بچنے میں بہت تاخیر ہوجائے گی۔

دوسال بعد امریکا کے مشرق کو متاثر کرنے والی گرمی کی شدید لہر کے وسط میں مجھے پروفیسر منابے اور ناسا کے جیمز ہینسن کے ساتھ سینیٹ کمیٹی میں مدعو کیا گیا۔ اُس روز جیمز ہینسن نے تصدیق کی کہ فضا میں گرین ہاؤس گیسیز کی اضافی مقدار موجود ہے جو ہمارے سیارے کی آب و ہوا بدل رہی ہیں۔ میں نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کی گئی ایک عالمی سائنسی کانفرنس کی رپورٹ پیش کی جس کا لُب لباب یہ تھا انسانوں کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سے فوری نمٹا جائے اور گرین ہاؤس گیسیز کے مزید اخراج روکنے کے لیے پالیسی ترتیب دی جائے۔

رپورٹ کی تشخیص کے بعد سامنے آنے والے نتائج میں سے ایک یہ نکتہ بھی میں نے وہاں اجاگر کیا کہ دیگر گرین ہاؤس گیسیز کے اخراج کے علاوہ قدرتی ایندھن جلنے سے ہونے والا اخراج دھیما کرکے فضا میں استحکام لانے کے لیے ہمیں اپنے موجودہ اخراج کو 60 فیصد کم کرنا ہوگا۔ اور یہ بھی انہیں بتایا کہ اگر معاملے کو معمول کی طرح لیا گیا تو آئندہ 40 سالوں میں کاربن کا مجموعی اخراج دگنا ہوجائے گا اور اس طرح آگے ہمارے سامنے ایک کھٹن چیلنج ہوگا۔

مذکورہ کانفرنس کی رپورٹ کے اعداد و شمار اب پرانے ہوچکے ہیں کیونکہ اخراج روکنے کے لیے کم اقدامات لیے گئے جو مطلوبہ اقدامات سے بہت کم ہیں۔ اگر دنیا کے ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک نے تب مل جل کر اقدامات لے لیے ہوتے تو ہمیں اب بہت سے بحران بھگتنے کے بجائے ہم موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوتے۔

سائنسی تحقیق کے لیے آئی پی سی سی کا قیام

اسی سال یعنی 1988ء میں موسمیاتی تبدیلی پراقوام متحدہ کے تحت بین الحکومتی پینل (انٹرا گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج- آئی پی سی سی) بنایا گیا جس نے دنیا کے ہزاروں سائنسدانوں کو آب و ہوا کے مسئلے کو جانچنے اور اس کا حل پیش کرنے پر کام کرنے کا ٹاسک دیا۔ سائنسدانوں کو مستقبل پر منڈلاتے ماحولیاتی خطرے کا اندازہ لگانے کا کام تقویض کرنا عالمی رہنماؤں کی ایک بے مثال کوشش تھی۔ اس کے بعد فضا میں کاربن کی ناقابلِ تنسیخ مقدار اور دنیا کے ممالک کی اپنی معیشتوں کو کاربن کا کم اخراج کرنے والی معیشتیں بنانے کی کبھی زیادہ اور کم ہونے والی حکومتی کوششوں میں ایک دوڑ لگ گئی۔

میں اور میرے سائنسدان اور ماحولیات دان ساتھیوں کو اندازہ تھا کہ ایک ایسا مستقبل ہمارے نزدیک ہے جس میں ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث موسمی شدت اور موسمیاتی واقعات بشمول سنگین ہوتی خشک سالی، سمندری طوفان اور گرمی کی شدید لہریں سخت نقصان پہنچائیں گی۔ اس سے پہلے کہ ممالک آب و ہوا میں تبدیلی کے سنگین نتائج کے اثرات اموات اور تباہی کی صورت میں بھگتیں جو سائنس کو نظر آرہا تھا، ہمارا مقصد انہیں عملی اقدامات کی طرف جانا تھا۔ مگر افسوس ہم اس دوڑ میں ناکام ہوچکے ہیں۔

ارتھ کانفرنس کا بے اثر معاہدہ

ہم نے کاربن کے اخراج میں کمی کے جو اقدامات لیے ہیں وہ بہت کم اور بہت آہستہ لیے جارہے ہیں۔ 1992ء میں ریو ڈی جنیریو میں ہونے والی ارتھ کانفرنس میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے پر دستخط کرنے تمام ممالک ایک فورم پر آئے۔ اُس معاہدے کا مقصد سال 2000ء تک فضا میں گرین ہاؤس گیسیز کے اخراج کی سطح 1990ء کی سطح تک لے جانا تھا۔ لیکن وہ معاہدہ بے اثر رہا کیونکہ اس میں درج اخراج میں کمی کے اہداف کا نفاذ ہی نہیں ہوا۔ اس کانفرنس میں امریکا کی شرکت ایک امید تھی کیونکہ اس نے فضا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کی ہے۔

امریکی کانگریس نے مذکورہ معاہدے کی توثیق کی تھی اور اسی سال بل کلنٹن کا بطور صدر انتخاب موسمیاتی تبدیلی روکنے کی کارروائیوں کے لیے اچھا شگون ثابت ہوا تھا لیکن جب نئے صدر نے اخراج روکنے کے لیے توانائی کا ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو اسے کانگریس سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے اپنی تجویز واپس لے لی۔ امریکی سیاست میں ٹیکسز پر تنازع رہتا ہے اس لیے کاربن ٹیکس کے نفاذ کا راستہ وہاں اب تک رکا ہوا ہے۔

کیوٹو پروٹوکول، ایک جانبدار معاہدہ

جب ممالک کو لگا کہ ریو ڈی جنیریو میں ہونے والے معاہدے پر کوئی خاص پیش قدمی نہیں ہورہی ہے تو ترقی یافتہ ممالک کے اخراج میں کمی لازمی کرنے کے لیے ممالک اگلی بار 1997ء میں جاپان کے شہر کیوٹو میں اکٹھے ہوئے۔ تاہم اپنے پیش رو معاہدے اور یو این ایف سی سی سی (یونائٹیڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج)کی طرح کیوٹو معاہدے نے بھی ترقی پذیر ممالک کو اپنے کاربن اخراج کو کم کرنے کا پابند نہیں کیا اور اسی وجہ سے مذکورہ معاہدہ بھی کوئی خاص اثر نہیں دکھا سکا کیونکہ چین اور بعدازاں کچھ دیگر ترقی پذیر ممالک کے کاربن کا اخراج تیزی سے بڑھ رہا تھا۔

امریکا نے کیوٹو پروٹول کی کبھی توثیق نہیں کی اور سال 2001ء میں نئے منتخب ہونے والے صدر جارج ڈبلیو بش نے امریکا کو بنیادی معاہدے سے ہی نکال لیا۔ یوں امریکی ایوانوں میں فوسل فیول بھاری مقدار میں استعمال کرنے والی کمپنیوں کے اثر و رسوخ کے باعث سائنس یہ جنگ ہار گئی۔

اُن میں سے بہت سے کمپنیز اور تجارتی انجمنان نے نام نہاد مفکرین کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر گمراہ کُن مہمات چلائیں اور فوسل فیول کے کاروبار سے منسلک سیاستدانوں نے سائنس کے موسمیاتی نظریے کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں کو سپورٹ کیا۔ ایک ایسی صورت حال کہ جہاں نجی مفادات جھوٹ اور غلط بیانی کررہے تھے ایسے میں عوام کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ خطرات کو نظرانداز کردیں۔

فوسل فیول کمپنیوں کی گمراہ کن مہمات کے باعث یورپی عوام میں تقسیم کم تھی اور یورپ بہت جلد موسمیاتی مسئلے پر عالمی رہنما بن کر اُبھرا۔ کینیڈا اور آسٹریلیا مقامی فوسل فیول کمپنیوں کے دباؤ میں آگئے اور کیوٹو پروٹوکو ل پر صرف باتوں کی حد تک محدود رہے اور کاربن کا اخراج کم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں لیے گئے۔

معاہدہ پیرس، ایک روشن اُمید

سال 2014ء میں امریکا اور چین نے اس معاملے پر متحد ہوکر اخراج کے قومی اہداف مقرر کرنے کی تجویز دی جس کے نتیجے میں اگلے سال معاہدہ پیرس ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ معاہدہ پیرس ایک طرح سے تاریخی معاہدہ تو بنا لیکن وہ بھی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوا جیسا کہ چین اور حال ہی میں بھارت اپنے کاربن کا اخراج مذکورہ معاہدے کے باوجود تیزی سے بڑھا رہے ہیں کیونکہ ان کی اقتصادی سرگرمیوں کا بدستور کوئلے پر بڑی حد تک انحصار ہے۔

اس کے باوجود چین اپنے موسمیاتی عزائم پورے کرکے اور فضائی اخراج میں کمی لاکر اپنا امیج بہتر بناتے ہوئے پوری دنیا کو قابلِ تجدید توانائی سے چلنے والی ٹیکنالوجی اور مصنوعات دنیا بھر میں فروخت کرکے اپنے لیے تجارتی فائدے سمیٹ سکتا ہے۔

اب تک چین کی قیادت اپنے معاہدہ پیرس کے اہداف کے حصول کی نگرانی اور اُس کی رپورٹ پیش کرنے میں مکمل شفافیت پر متفق نہیں ہے اور اس نکتے پر جب تک وہ اپنا مؤقف نہیں بدلے گا اپنا ایک ذمہ دار عالمی رہنما کے طور پر امیج نہیں بنا پائے گا۔

امید اب بھی باقی ہے

ہم ایک دوڑ پہلے ہی ہار چکے ہیں یعنی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کی دوڑ۔ تاہم جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے ہم دوسری دوڑ کے آغاز پر ہیں جوکہ موسمیاتی بحران کم کرنے اور ہمارے واحد قابلِ رہائش سیارے کو بچانے کی دوڑ ہے۔ اس دوڑ کو جیتنے کے لیے ابھرتی ہوئی موسمیاتی قیادت کو فوسل فیول کے مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا اور اس خام خیالی کو ختم کرنا ہوگا کہ یہ سب کچھ کیا دھرا میری نسل کا نہیں ہے۔

توانائی کی ٹیکنالوجی میں ترقی، بحران پر نظریاتی تفریق میں کمی، نئی نسل کا بامقصد دباؤ اور مضبوط قوت ارادیتا امید کی کرن ہے۔ یہ آسان تو نہیں مگر اب موسمیاتی خطرات سب کے سامنے ہیں اور اب کی بار کوئی موسمیاتی خطرات کے وجودی بحران سے انکار نہیں کرسکتا۔

مجتبیٰ بیگ

لکھاری معروف ماحولیاتی مصنف اور مترجم ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔