نقطہ نظر

اداریہ: ’ہمارے دفاتر کو ملازمین کی ذہنی صحت کو ترجیح بنانا ہوگا‘

حالیہ برسوں میں دفاتر یا کام کے دیگر مقامات پر تناؤ اور ذہنی صحت کے مسائل نے پوری دنیا میں توجہ حاصل کی ہے لیکن پاکستان میں صورت حال تشویش ناک ہے۔

ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جوکہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم ایسے مسئلے کی جانب توجہ دیں جسے اکثر اوقات نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

رواں سال اس دن کا مرکزی خیال ’دفاتر یا کام کے دیگر مقامات میں ذہنی صحت‘ ہے جو اس ضرورت پر زور دیتا ہے کہ ہم اپنے پیشہ ورانہ ماحول میں ذہنی صحت کے مسائل کو اجاگر کریں۔

چونکہ بالغ افراد اپنا زیادہ تر وقت کام پر گزارتے ہیں اس لیے دفاتر یا کام کے دیگر مقامات کو صحت بخش بنانا نہ صرف اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ یہ معاشی ضرورت بھی ہے۔

وہ دفاتر اور کام کے مقامات جو ذہنی صحت کو ترجیح نہیں دیتے وہاں نتیجتاً انزائٹی، ڈپریشن، ذہنی تھکاوٹ اور اس جیسے دیگر سنگین ذہنی مسائل سر اٹھاتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ ادارے جو بہتر ذہنی صحت کو فروغ دیتے ہیں، وہ ملازمین کو پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگیوں دونوں میں ترقی کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں دفاتر یا کام کے دیگر مقامات پر اسٹریس اور ذہنی صحت کے مسائل نے پوری دنیا میں توجہ حاصل کی ہے لیکن پاکستان میں صورت حال تشویش ناک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 10 فیصد افراد ذہنی مسائل کا شکار ہیں یعنی تقریباً 2 کروڑ افراد۔ حیران کن طور پر زیادہ تعداد ہونے کے باوجود دماغی صحت ہمارے معاشرے میں ممنوعہ موضوع ہے بالخصوص پیشہ ورانہ ماحول میں کیونکہ وہاں ان مسائل پر بات کرنا اکثر اوقات فرد کی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔

ملازمت کے حوالے سے تحفظ کا احساس نہ ہونا، ضرورت سے زیادہ کام کا بوجھ اور دماغی صحت کی بہتری کے لیے درکار وسائل تک محدود رسائی کے چیلنجز کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اس نوعیت کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے جس کا بہت سے ملازمین خاموشی سے سامنا کررہے ہیں۔

ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کہ جہاں افرادی قوت کو پہلے ہی معاشی تناؤ کا سامنا ہے وہاں ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا تدارک انتہائی اہم ہے۔ کم اجرت اور مینوفیکچرنگ، زراعت میں کام کے ناقص حالات، یہاں تک کہ تیزی سے ترقی کرتی ڈیجیٹل معیشت جیسے شعبہ جات نے بھی ذہنی مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔

بہت سے معاملات میں ملازمین اس خوف سے ذہنی امراض کے ماہرین سے مدد لینے میں ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ انہیں عجیب نظروں سے دیکھا جائے گا یا انہیں کام کرنے کے لیے نااہل سمجھا جائے گا۔ اس سے دماغی صحت کے مسائل کا علاج نہیں ہوتا جوکہ پیداواری صلاحیت میں کمی، دفاتر سے غیر حاضری اور ملازمت چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ یہ تمام عوامل ملکی معیشت کو متاثر کرتے ہیں۔

پاکستان میں دفاتر یا کام کے دیگر مقامات پر ذہنی صحت سے متعلق ادارہ جاتی معاونت اور پالیسیز کا فقدان ہے۔ بہت سے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس جہاں ملازمین کے لیے پروگرامز، کام کے لچکدار اوقات اور ذہنی صحت سے متعلق آگاہی اور تربیت معیاری ہوتی جارہی ہے، ہمارے کارپوریٹ اور صنعتی شعبہ جات میں اس طرح کے اقدامات انتہائی شاذونادر دیکھنے میں آتے ہیں۔

معاشروں میں یہ فرق، کام کے مقامات پر ذہنی تندرستی کو فروغ دینے کے لیے ثقافتی تبدیلی اور قانون سازی کی اصلاحات دونوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

کورونا وبا نے دفاتر سمیت زندگی کے دیگر پہلوؤں میں ذہنی صحت کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ اس وقت گھروں سے کام کرنا عام بن گیا تھا بالخصوص آئی ٹی اور دیگر شعبہ جات کے ملازمین نے گھروں سے کام کیا جس کی وجہ سے کام اور ذاتی زندگی کے درمیان لکیر دھندلا گئی، نتیجتاً ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوا۔

دفاتر اور کام کے دیگر مقامات میں بہتر ذہنی صحت کی ضرورت پر زور دینے کی آج جتنی ضرورت ہے پہلے نہیں تھی اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ آجر نظرثانی کریں کہ وہ اپنے ملازمین کی مدد کے لیے کیا کرتے ہیں۔

رواں سال ذہنی صحت کے عالمی دن کا پیغام انتہائی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ دفاتر یا کام کے دیگر مقامات میں ذہنی صحت کو ترجیح بنانا ہوگا۔ پاکستان میں کام کے مقامات پر ذہنی صحت سے متعلق گفتگو کرنے کی ٹھوس کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کا تدارک کرکے ہی ہم ایک جامع، پیداواری اور صحت مند افرادی قوت تشکیل دے سکتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ