پاکستان

پنجاب کی عدالتوں میں 20 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہونے کا انکشاف

لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت 24 ججوں کی کمی ہے، 60 ججز میں سے صرف 36 ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ اور پنجاب کی ضلعی عدالتوں میں 10 لاکھ سے زائد کیسز کے زیر التوا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق یہ انکشاف آڈٹ رپورٹ میں کیا گیا، جو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم کی ہدایت پر ہونے والا تاریخ میں پہلی بار زیر التوا مقدمات کا جامع فزیکل آڈٹ ہے۔

عبوری رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں 10 لاکھ سے زائد کیسز ابھی زیر التوا ہیں، جن میں سے 65 ہزار 975 کیسز لاہور کی پرنسپل سیٹ پر ہیں۔

اس بیک لاگ میں 11ہزار 836 سول مقدمات، 25 ہزار 312 فوجداری مقدمات، 26 ہزار 175 رٹ پٹیشنز اور 2ہزار 652 کمرشل اور ٹیکس مقدمات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ہائی کورٹ بہاولپور برانچ میں 9 ہزار 703، ملتان برانچ میں 22 ہزار 675 اور راولپنڈی برانچ میں 5 ہزار 343 کیسز زیر التوا ہیں۔

پنجاب کی ضلعی عدلیہ کو اس سے بھی بڑے پیمانے کے بیک لاگ کا سامنا ہے، جہاں 14 لاکھ سے زائد مقدمات اب بھی حل کے منتظر ہیں، جن میں 11 لاکھ 90 ہزار سول مقدمات اور 217،000 سیشن مقدمات شامل ہیں۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ یہ تعداد کیسز کے بیک لاگ کو کم کرنے اور تمام فریقین کے لیے بروقت انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں بیک لاگ کو دور کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ کو حتمی شکل دی جائے گی۔

لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت 24 ججوں کی کمی ہے، 60 ججز میں سے صرف 36 ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اسی دوران لاہور ہائی کورٹ نے 103 برطرف ڈپٹی اکاؤنٹنٹس کے کیس کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کر دیا، جن میں زیادہ تر وہ خواتین تھیں جن کی تقرری پیپر لیک اسکینڈل کے بعد منسوخ کر دی گئی تھی۔

جسٹس فیصل زمان خان اور جسٹس مسعود عابد نقوی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جلد سماعت کی کوئی بنیادی وجہ نہیں ہے۔

یہ کیس اپریل 2021 کا ہے، جب پنجاب کے محکمہ خزانہ نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کی سفارش پر کی گئی تقرریوں کو ختم کر دیا تھا۔

سابقہ سرکاری عہدوں کو چھوڑ کر نئی ذمہ داریاں سنبھالنے والے اکاؤنٹنٹس نے برطرفی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

تاہم صوبائی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بنچ کے سامنے انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) دائر کرنے کے بجائے اس معاملے پر براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

فروری 2022 میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کو 45 دن کے اندر حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس معاملے کو دوبارہ لاہور ہائی کورٹ بھیج دیا تھا، ساتھ ہی ملازمین کو بحال کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی معطل کر دیا تھا۔