پاکستان

بلوچستان نے سندھ کی حمایت کردی، پنجاب سے زیادہ پانی حاصل کرنے کے خواہاں

صوبے کو برسوں سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے کہ اس موضوع پر فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کرے گی لیکن یہ معاملہ سالوں سے زیر التوا ہے، سیکریٹری آبپاشی سندھ

بلوچستان نے پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کرتے ہوئے سندھ کی مخالفت کرنے کے بجائے حمایت کی ہے تاکہ دونوں صوبے 2 دہائیوں سے زائد عرصے سے تعطل کا شکار صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے طریقہ کار پر عملدرآمد کر کے پنجاب سے زیادہ پانی حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) ایڈوائزری کمیٹی (آئی اے سی) کے اجلاس میں سیکریٹری آبپاشی سندھ ظریف کھیرو نے حکومت سندھ کے اس مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے واٹر ریگولیٹر کی جانب سے منظور کردہ تین سطح کے فارمولے کے بجائے 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے پیرا 2 کے تحت صوبائی سطح پر پانی کی تقسیم کی جائے۔

ظریف کھیرو نے اس کے بعد اصرار کیا کہ پانی کی تقسیم کے فارمولے کو فوری طور پر تین سطح کے فارمولے سے پیرا 2 پر منتقل کیا جانا چاہئے اور اس کا فیصلہ اسی وقت کیا جانا چاہئے اور الزام لگایا کہ ارسا نے طویل عرصے سے سندھ کو 1991 کے پانی کے معاہدے میں طے شدہ پانی کے حصے سے محروم رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے صوبے کو برسوں سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے کہ اس موضوع پر فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کرے گی لیکن یہ معاملہ سالوں سے زیر التوا ہے۔

ظریف کھیرو نے کہا کہ یہ تنازع خود ارسا کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور ادارے نے اپنی ذمہ داری کسی دوسرے فورم پر منتقل کردی ہے۔

انہوں نے آئی اے سی کے اجلاس میں کہا کہ یہ فیصلہ ارسا کو خود کرنا ہے اور اسے پانی کی تقسیم کو آج پیرا 2 میں منتقل کرنا چاہئے۔

پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے ارسا کے اراکین کو حیران کر تے ہوئے ارسا کے چیئرمین اور بلوچستان کے رکن عبدالحمید مینگل نے سندھ کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے صوبے نے اپنا مؤقف تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب وہ سندھ کے ساتھ کھڑا رہے گا کیونکہ یہ سندھ اور بلوچستان دونوں کے مشترکہ مفاد میں کا حصہ ہے۔

عبدالحمید مینگل نے کہا کہ پیرا 2 کے اطلاق سے سندھ کو پانی کا زیادہ حصہ ملے گا جس کے نتیجے میں بلوچستان کو پانی کی بہتر سپلائی میں ملے گی۔

کئی سالوں سے بلوچستان سندھ کے خلاف شکایت کرتا رہا ہے کہ سندھ اپنا پانی کا حصہ اپنی نہروں میں بہنے نہیں دے رہا ہے۔

بلوچستان سندھ سے اپنی زرعی زمینوں تک پانی کی فراہمی کے بجائے پانی کا معاوضہ مانگ رہا ہے۔

تاہم پنجاب اور وفاقی ارکان نے تکنیکی بنیادوں پر اس اقدام کو روک دیا، انہوں نے اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ سی سی آئی میں زیر التوا ہے اور ممبر خیبر پختونخوا کا عہدہ بھی خالی ہے، لہٰذا ارسا بطور ذیلی فورم سی سی آئی سے اپنا کیس واپس لینے اور خود فیصلہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا، خاص طور پر اس وقت جب خیبرپختونخوا کے رکن کا عہدہ خالی ہے۔

انہوں نے اصرار کیا کہ اگر سی سی آئی اس کیس کو واپس بھیج بھی دے تو ارسا اس پر بات چیت نہیں کر سکتا، جب تک کہ ارسا میں پانچ رکنی بینچ مکمل نہیں ہو جاتا تب تک فیصلہ خود کرنا پڑے گا۔

ارسا نے کچھ سالوں سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پانی کے تقسیم کے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کر سکتا یعنی صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے لیے تین سطح کے فارمولے کو تبدیل نہیں کرسکتا، 1991 کے پانی کے معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم اس معاہدے کے پیرا 2 کے تحت کی گئی تھی جس میں صوبائی حصص کا تعین کیا گیا تھا۔

تاہم قلت کی وجہ سے یہ طریقہ کار فی الحال ایک دہائی سے زائد عرصے سے لاگو نہیں ہے کیونکہ ارسا نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی شمولیت سے 2002 میں پانی کی قلت کی روشنی میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک وسیع طریقہ کار وضع کیا ہے، تین سطح پر مشتمل فارمولہ اب پیرا 2، پیرا 14 (اے) اور 1977 سے 1982 کے تاریخی استعمال کا مجموعہ ہے۔

تاہم تین سطح کے فارمولے کے تحت چھوٹے صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو قلت کے اطلاق سے استثنیٰ حاصل ہے، تاہم سندھ کو اس فارمولے کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

ارسا کے مطابق پانی کی تقسیم کا تین سطح کا فارمولہ منظم ہے، یہ ارسا ایڈوائزری کمیٹی کے مینڈیٹ سے باہر ہے کہ وہ 10 روز کے نظام کے استعمال کو تبدیل کرے جیسا کہ پیرا 14 بی میں بیان کیا گیا ہے۔