دنیا

روس کی اعلیٰ قیادت کا افغان طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ

اس فیصلے کو حقیقت بنانے کے لیے مختلف قانونی طریقہ کار کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے، روسی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان

روس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین سطح پر افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ نے روس کے سرکاری خبر رساں ادارے ’طاس‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر ولادیمیر پیوٹن کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف کے مطابق اس فیصلے کو حقیقت بنانے کے لیے مختلف قانونی طریقہ کار کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ولادیمیر پیوٹن نے جولائی میں کہا تھا کہ روس، افغانستان کی طالبان تحریک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی سمجھتا ہے۔

اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے روس بتدریج طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کر رہا ہے، تاہم روس میں یہ تحریک اب بھی سرکاری طور پر غیر قانونی ہے۔

کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر طالبان کو ملک کی قانونی قیادت تسلیم نہیں کیا ہے، تاہم چین اور متحدہ عرب امارات نے اس کے سفرا کو قبول کیا ہے۔

روس نے 2003 میں طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اسے اس فہرست سے نکالنا افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ماسکو کا ایک اہم قدم ہوگا۔

جمعہ کو الگ بیان میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ ماسکو، موجودہ افغان حکومت کے ساتھ ’عملی بات چیت‘ کو برقرار رکھنے کی ضرورت کا قائل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ظاہر ہے کہ کابل کے بغیر مسائل کا حل یا افغان تصفیہ پر بات چیت کرنا ناممکن ہے۔‘

ماسکو میں اپنے افغان ہم منصب امیر خان متقی اور ہمسایہ ممالک کے نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ماسکو، کابل کے ساتھ سیاسی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تعاون جاری رکھے گا۔‘

اگرچہ انہوں نے طالبان کا نام نہیں لیا، تاہم انہوں نے منشیات کی پیداوار کو روکنے اور روس میں کالعدم دہشت گرد گروپ ’داعش‘ سے لڑنے کی کوششوں کے لیے موجودہ افغان قیادت کی تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو افغانستان کو ضبط کیے گئے اثاثے واپس کرنے چاہئیں اور مغرب کو ملک میں تنازعات کے بعد کی تعمیر نو کی ذمہ داری کو تسلیم کرنا چاہیے۔

سرگئی لاروف نے افغانستان کے لیے انسانی امداد میں اضافے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ روس اسے خوراک اور ضروری سامان بھیجتا رہے گا۔

واضح رہے کہ روس کی افغانستان میں مشکلات سے بھری تاریخ ہے، جہاں سوویت فوج نے 1979 میں ماسکو کی حامی حکومت کی حمایت کے لیے حملہ کیا تھا لیکن مجاہدین جنگجوؤں کے ہاتھوں بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد انخلا کرلیا تھا۔