نقطہ نظر

رتی گلی سے گھموٹ تک: تین روز میں 11 جھیلوں کا سفر

ہماری ٹریکنگ ٹیم رتی گلی جھیل سے سرال جھیل اور پھر براستہ گھموٹ گاؤں شاردا اتری جس دوران ہم نے 11 جھیلوں کی سیر کی۔

گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ میں وادی نیلم میں مجھے بےشمار خوبصورت مقامات کو ٹریکنگ کرکے دیکھنے کا وقتاً فوقتاً موقع ملتا رہا ہے۔

عموماً یہ عاجز خوبصورتی کے اعتبار سے وادی نیلم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جسارت کرتا رہا ہے جس میں ایک حصہ کیل (قصبہ) تک اور دوسرا حصہ کیل سے تاؤبٹ کے بیچ آتا ہے۔ کیل سے پہلے سرحد پار زیادہ حصہ کپواڑہ اور کیل کے بعد ڈسٹرکٹ بانڈی پورہ کا علاقہ وادی نیلم کے ساتھ ساتھ بھارتی طرف واقع ہے جبکہ کیل سے تاؤبٹ کے بیچ وادی گریز کے نام سے جانی جاتی ہے۔

وادی میں رتی گلی (دیواریاں/برکاتیہ) جھیل کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ عرصہ دراز سے یہ جھیل رتی گلی کے نام سے موسوم ہے لیکن گوروں نے اس جھیل کو دھاریاں سر کا نام دیا۔ یہ وادی نیلم کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ امسال برادرم رئیس انقلابی کے ساتھ رتی گلی جھیل سے سرال جھیل اور پھر براستہ گھموٹ گاؤں شاردا اترنے کا پلان تھا۔

وقت مقررہ پر ہم اپنے میزبان رئیس بھائی کے پاس پہنچے۔ رتی گلی جھیل پر پرانی یادیں تازہ کرکے گٹیاں پاس کی طرف چڑھائی شروع کی تاکہ اگلی صبح ٹریکنگ شروع کرنے سے پہلے جسم کو باقاعدہ موسم کے موافق بنایا جاسکے۔ رتی گلی جھیل کی طرف سے یہ ایک مشکل چڑھائی تصور کی جاتی ہے، بہرکیف اس چڑھائی نے جسم کو کافی تھکا دیا اور رات خیمہ زن ہوتے وقت چند دوستوں کے مطابق یہ ایک زائد سرگرمی تھی۔

اگلی صبح ناشتہ کے بعد ٹیم روانہ ہوئی اور ایک گھنٹہ 40 منٹ کے بعد ہم ہنس راج جھیل تک جاپہنچے۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہنس راج جھیل کے عقب میں موجود دو جڑواں جھیلوں کی طرف جانے کا قصد کیا۔ یہ دونوں جھیلیں کالا سر ون اور کالا سر ٹو کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ایک جھیل قدرے بڑی اور دوسری جھیل ضخامت کے اعتبار سے چھوٹی ہے۔

ان دونوں جھیلوں پر پہنچنے سے قبل ایک مناسب چڑھائی چڑھنی پڑتی ہے اور جھیل کی آمد سے قبل پتھروں کی بڑی سلوں کو بھی پار کرنا ایک صبر آزما امتحان ہے۔ دونوں جھیلوں کا نظارہ شاندار ہے اور قدرت کی صناعی کا شاہکار ہے۔

کچھ دیر سستانے کے بعد ہماری اگلی منزل کالا سر پاس (رتی گلی پاس) تھی۔ 14 ہزار فٹ سے بلند اس پاس کی چڑھائی قدرے مشکل ہے۔ 30 سے 40 منٹ کی چڑھائی کے بعد اس پاس سے پوری وادی کا نظارہ شاندار تھا۔ موسم صاف ہونے کی وجہ سے دور دور تک کی چوٹیاں صاف دکھائی دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نانگا پربت کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

کچھ دیر ٹاپ پر گزارنے کے بعد ہماری منزل نوری نار گلی کے قدرے اوپر والی طرف سے نوری جھیل کی طرف اترنا تھا۔ راستہ بہت خراب تھا اور دھوپ کی تمازت سے جسم میں پانی کی مسلسل کمی ہونے لگی تھی۔ جلد ہی نوری جھیل ٹاپ سے دکھائی دینے لگی اور ہم آہستہ آہستہ جھیل پر اترنے لگے۔ نیلگوں جھیل آنکھوں کو بہت ہی بھلی لگ رہی تھی۔ جھیل کے اردگرد کھلے ہوئے پھول، جھیل کے اردگرد کے نظاروں کو اور بھی خوبصورت بنا رہے تھے۔ قدرت کے یہ نظارے ٹریکرز کے لیے بوسٹر ڈوز کا کام کرتے ہیں اور فی الفور تھکاوٹ کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔

چونکہ سورج پہاڑوں کے بیچ غروب ہونے جارہا تھا لہٰذا جھیل پر کچھ دیر سستانے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل نوری آبشار کی طرف چل پڑے۔ دراصل جھیل کا پانی ایک قدرتی اور بڑی آبشار کے ذریعے وادی میں اترتا ہے۔ ایک گھنٹہ سے کچھ زائد ٹریکنگ کرنے کے بعد ہماری ٹیم نوری آبشار کے پہلو میں جاپہنچی۔ رات قیام کے لیے نوری آبشار کے سامنے ہی خیمہ زن ہوئے۔ ایسے خوبصورت مقام پر پلاؤ پکانا اور پھر رات بھر گپ شپ کرنا چند ہی ٹریکرز کے نصیب میں آتا ہے۔

اگلی صبح موسم صاف تھا اور ہماری منزل سرال جھیل تھی۔ ٹریکنگ کا آغاز کرتے ہی ہم شاردا سے بیسر کو ملانے والی سڑک پر جاپہنچے اور ایک کلومیٹر کے بعد سڑک کو خیرآباد کہہ کر سرال پاس (جمعہ پاس) کی طرف دوبارہ پگڈنڈیوں پر چل پڑے۔ رئیس بھائی کے ایک بکروال دوست کے پاس دیسی لسی پی کر تازہ دم ہوئے اور یقین جانیے کہ ان وادیوں کے بیچ بکروال دوستوں کے ہاں لسی پینا بھی خوش قسمتی ہے۔

تقريباً دو گھنٹے سے کچھ زائد ٹریکنگ کرکے سرال پاس کی چڑھائی چڑھتے ہوئے ٹاپ پر پہنچے اور کچھ دیر سستانے کے بعد ایک انتہائی خطرناک اترائی کو عبور کیا۔ اس اترائی کا زیادہ حصہ گلیشیئرز اور پتھروں پر مشتمل ہے۔

اترائی کی تھکاوٹ جونہی جسم میں داخل ہونے لگتی ہے ویسے ہی دور سے سرال جھیل کا پہلا نظارہ نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ مزيد ایک گھنٹے ٹریکنگ کرنے کے بعد ہماری ٹیم جھیل کے ساتھ چلتی ہوئی اپنے مقررہ بیس کیمپ پر پہنچ چکی تھی۔

سرال ایک بے مثال جھیل ہے اور بہت ہی خوبصورت اور بڑی جھیل ہے۔ وادی نیلم کی بڑی جھیلوں میں اس کا شمار ہوتا ہے جبکہ وادی ناران کے قرب میں واقع اس جھیل سے دودھی پت سر جھیل بھی صرف آدھے دن کی ٹریکنگ پر واقع ہے۔ جھیل پر خوب لطف اندور ہونے کے بعد رات کیمپ فائر کیا گیا۔ مقامی دوستوں نے اپنی سریلی آوازوں سے ایک ٹھنڈی رات کے ماحول کو گرما دیا۔ اس طرح آسمان پر موجود سیکڑوں کی تعداد میں ستاروں اور ملکی وے کہکشاں کا نظارہ بھی قابلِ دید تھا۔

تیسرے دن کا آغاز ہلکی پھوار سے ہوا۔ ہماری ٹیم کے ممبر ناشتے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ جلد ہی بارش رک گئی اور سورج بھی آب و تاب کے ساتھ دوبارہ نکل آیا۔

عموماً سرال جھیل سے ٹریکرز دودی پت سر پر رات کے قیام کے بعد وادی ناران کو پار کرکے اپنی ٹریکنگ کا اختتام کرتے ہیں۔ تاہم عاجز نے ٹیم کے ہمراہ گھموٹ پاس پار کرنے کا منصوبہ بنایا چونکہ گھموٹ پاس لوکل بکروال بھی نہیں کرتے یا خال خال ہی کوئی سرال جھیل پر بکروال ملا جو گھموٹ ٹریک کرکے شاردا پہنچا ہو لہٰذا ہمارے لیے یہ ایک چیلنج تھا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ گھموٹ کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے اور یہ بےشمار درندوں سے بھرا پڑا ہے۔ رئيس انقلابی اور ان کی ٹیم کچھ نئی جھیلوں کی تصویر کشی کے لیے سرال جھیل کے مشرقی جانب چل پڑی جبکہ ہماری ٹیم گھموٹ کی طرف روانہ ہوئی اور یہی فیصلہ ہوا کہ گھموٹ میں دونوں ٹیمیں دوبارہ اکھٹی ہوجائیں گی۔

شروع کا راستہ قدرے آسان تھا۔ تین گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ایک مقام پر پہنچے جہاں بابوسر پاس کی طرف سے بہتا ہوا نالہ اور سرال کی طرف سے بہتا نالا آپس میں ضم ہوکر باہم گھموٹ کی طرف بہتے ہیں جبکہ اسی مقام سے راستہ ختم ہوجاتا ہے اور بہت ٹیکنیکل ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض مقامات پر رسوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے جبکہ ہمارے پاس رسوں کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیش آتی رہیں۔

بعض مقامات پر درختوں کی جڑوں کا سہارا لے کر نیچے نالہ میں اترنا پڑا اور کچھ مواقع پر رسہ نہ ہونے کے باعث سویٹرز یا گلوبند کو آپس میں باندھ کر پُرخطرناک اترائی عبور کرنی پڑیں۔

گھموٹ گاؤں سے کچھ پہلے رئیس اور ہماری ٹیمیں آپس میں مل گئیں اور یوں سخت تھکا دینے والی ٹریکنگ کے تین ایام اختتام کو پہنچے۔ رات 12 بجے ایک گاؤں میں جیپ تک پہنچے اور مزید دو گھنٹے کے سفر کے بعد رات گئے ہم شاردا شہر پہنچ گئے۔

نصر احمد بھٹی

لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔