پاکستان

25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی، بلاول بھٹو

اس سے قبل ترامیم ہوئیں تو 19ویں ترمیم جیسی مشکلات نہیں ہوں گی، اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لانا ہو گا، چیئرمین پیپلز پارٹی

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی البتہ اس سے قبل ترامیم ہوئیں تو 19ویں ترمیم جیسی مشکلات نہیں ہوں گی اور اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لانا ہو گا۔

اسلام آباد میں کورٹ رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر میں ترامیم کو لیڈ کرتا تو پی ٹی آئی کو بھی ساتھ رکھتا، مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش ہے کہ ترمیم کے معاملے میں تحریک انصاف کو بھی ساتھ لیا جائے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت نے ہم سے پہلے ترمیم کا آئیڈیا عدلیہ سے شیئر کر دیا تھا، اس کے بعد مخصوص نشستیں ہی ہم سے چھن گئیں تو شاید اسی لیے اس بار ترامیم کو خفیہ رکھا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو مانا ہے، آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا اور ہم صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں چاہتے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ کراچی بدامنی کیس کو برسوں سے زیر التوا رکھا گیا ہے اور بدامنی کیس کو بنیاد بنا کر عدالت نے سندھ کا بلدیاتی نظام تک بدل ڈالا، بدامنی کیا صرف کراچی میں ہے؟ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے لیے اس کیس میں عدالت آئین ہی الگ کر دیتی ہے، کوئی جج آکر کہہ دیتا ہے سن50 کی دہائی والا کراچی چاہیے، اب ایسے تو شہر میں معاشی مواقع ضائع ہو جائیں گے، سن50 والے کراچی پر جائیں تو نہ بلڈنگ بنیں نہ کچھ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم میں مشکلات ہوں گی، مخصوص نشستوں کا فیصلہ یہی اشارہ کرتا ہے البتہ 25 اکتوبر سے پہلے ترامیم ہوئیں تو 19ویں ترمیم جیسی مشکلات نہیں ہوں گی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کا ملٹری ٹرائل ہونا چاہیے تو انہوں نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل کرنا ہے تو ثبوت لائیں، فکر نہ کریں معافی کا اختیار اس وقت ہمارے پاس ہے۔

اپوزیشن سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے ایک شخص کے لیے ترمیم کیے جانے کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص کے لیے ترمیم ہوتی تو تاحیات تعیناتی لکھ دیتے۔

آئینی عدالت کے سربراہ فائز عیسیٰ ہوں یا جسٹس منصور ، وہ تین سال کے لیے ہوں گے اور ہمیں جسٹس منصور علی شاہ پر یقین ہے کہ وہ اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرتے۔