پاکستان

مجوزہ آئینی پیکج پر پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ (ق) اور اے این پی سے مشاورت

ہمارا مقصد 2006 کے میثاق جمہوریت کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے، عدالتی کیسز میں بیک لاگ کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے، شیری رحمٰن

مجوزہ آئینی پیکیج کی حمایت کے لیے کوششوں کا سلسلہ جاری ہے، اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطح کے وفد نے سینیٹر شیری رحمٰن کی قیادت میں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری سالک حسین اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر ہدایت اللہ سے مشاورت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان اہم ملاقاتوں میں شیری رحمٰن کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما نیئر حسین بخاری اور سینیٹر شہادت اعوان بھی موجود تھے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رہنمائی میں ہونے والی یہ مشاورت ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام میں پارٹی کی کاوشوں کی نشاندہی کرتی ہے، جس میں صوبائی نمائندگی بھی شامل ہوگی، تاکہ اس بات کو یقنی بنایا جائے کہ عدالتی نظام منصفانہ رہے۔

ان ملاقاتوں کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کا تصور نیا نہیں ہے، یہ تصور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے دیا تھا، شیری رحمٰن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ تصور چارٹر آف ڈیموکریسی کا بھی حصہ تھا، جس پر مئی 2006 میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو آئین کی تشکیل کی حیثیت سے اپنا صحیح کردار ادا کرنا چاہیے، ہمارا مقصد 2006 کے میثاق جمہوریت کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے، انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی کیسز میں بیک لاگ کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا بہت ضروری ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر اس وقت 50 سے زائد ممالک میں آئینی عدالتیں کام کر رہی ہیں، ان کے مقدمات کا بیک لاگ تشویشناک ہے جس میں سپریم کورٹ میں 60 ہزار اور ملک بھر میں 22 لاکھ سے زائد زیر التوا مقدمات شامل ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ آئینی اور سیاسی مقدمات کو اس عدالت میں منتقل کرنے سے اعلیٰ عدلیہ کا قیمتی وقت بچے گا۔

رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ مجوزہ عدالت سیاسی معاملات میں عدلیہ کے ملوث ہونے کے خدشات کو کم کرنے میں بھی مدد کرے گی۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں، ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ یہ آئینی ترمیم انفرادی نہ ہو، ہماری مشاورت صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں، ہم وکلا اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ ترامیم تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق کے بعد ہوں۔

انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ پیپلز پارٹی شفافیت کے لیے پرعزم ہے، مزید کہنا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ کوئی بھی بل خفیہ طور پر یا خفیہ طریقوں سے منظور کیا جائے گا، پیپلز پارٹی اس معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے تیار ہے۔

ادھر، وزیر داخلہ محسن نقوی نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ کا دورہ کیا اور انہیں بلا مقابلہ پارٹی کا سربراہ اور عبدالغفور حیدری کو سیکریٹری جنرل منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔

اس ملاقات کے دوران مبینہ طور پر اہم موضوع آئینی ترمیمی پیکج پر تبادلہ خیال کیا گیا، محسن نقوی نے پارلیمانی بالادستی اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے پر مولانا فضل الرحمٰن کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں ایک دانشمند اور دور اندیش سیاست دان قرار دیا۔

باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ اگرچہ بہت سی سیاسی جماعتیں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کرنے کو تیار ہیں لیکن ججوں کی تقرری اور اہلیت پر بات چیت کے سبب بل پیش کرنے میں تاخیر ہوسکتی ہے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے متعلق بات چیت 25 اکتوبر سے آگے بھی بڑھ سکتی ہیں۔

جے یو آئی (ف) آئینی ترامیم کا اپنا مسودہ تیار کر رہی ہے جسے وہ مناسب وقت پر حکومت کے ساتھ شیئر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔