نقطہ نظر

دی کلائمیٹ بُک: ’موسمیاتی تباہی آئے گی لیکن بچاؤ بھی ممکن ہے‘

تیزی سے بڑھتا ماحولیاتی بحران جو تمام پودوں اور جانداروں کو متاثر کررہا ہے، اس حوالے سے یہ کہنا کہ تمام انسان اس کے ذمہ دار ہیں بالکل درست نہیں ہے۔

نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


برفانی دور معتدل ہوتے ہوتے جب آسان موسمیاتی دور میں تبدیل ہوا تو موسمیاتی ٹھیراؤ نے انسانوں کو شکاری سے کاشت کار بنادیا۔ یہ دور 11 ہزار 700 سال قبل برفانی دور کے فوری بعد شروع ہوا تھا۔ تاریخی اعتبار سے نسبتاً اس مختصر دور میں انسان نے دنیا کو مکمل طور پر بدل ڈالا۔ اس دور کا بڑی حد تک محور انسان رہا ہے’۔ یہ کہنا ہے معروف عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کا جو اپنی کتاب ’دی کلائمیٹ بک‘ کے پانچویں مضمون میں ہم سے مخاطب ہیں۔

کتاب میں دنیا کے دیگر عالمی موسمیات و ماحولیات دانوں کے علاوہ ان کے اپنے تصنیف کردہ کئی مضامین بھی شامل ہیں۔ آئیے اُن کے خیالات اُنہیں کی زبانی جانتے ہیں۔

ہولوسین یعنی آسان موسمیاتی دور میں ہی ہم نے کاشت کاری میں ترقی کی، مکانات تعمیر کیے۔ زبانیں، طرزِ تحریر، حساب کتاب، اوزار، سکے، مذہب، ہتھیار، فنون اور اختیارات کے درجات تخلیق کیے اور یوں انسانی معاشرہ بہت تیزی سے پھیلتا گیا۔ اس کے بعد صنعتی انقلاب آیا جو عظیم ترقی کا باعث بنا۔ یوں ہم ہوش اُڑانے والی ناقابلِ یقین حد تک تیز ترقی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے۔

اگر دنیا کی تاریخ کو وقت کے اعتبار سے محض ایک سال کے طور پر تصور کیا جائے تو صنعتی انقلاب کا دورانیہ ڈیڑھ سیکنڈ سے لے کر کسی بھی نئے سال کی آدھی رات تک کا بنتا ہے۔ انسانی تہذیب کے عروج سے لےکر اب تک ہم دنیا کے آدھے درخت کاٹنے، دو تہائی سے زیادہ جنگلی حیات ختم کرنے اور سمندر پلاسٹک سے بھرنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر معدومی اور موسمیاتی تباہی کا آغاز کرچکے ہیں۔ ہم زندگی کو سپورٹ کرنے والے اُس نظام کو غیر مستحکم کررہے ہیں کہ جس پر ہمارا دارومدار ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم اُس شاخ کو ہی کاٹ رہے ہیں جس پر ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔

ایسا کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک نسل کو دنیا جب اپنی پیشرو نسل سے وراثت میں ملتی ہے تو وہ کچھ جانے بغیر بس اس میں رہنا شروع کردیتی ہے اور سب کچھ اپنے ہی انداز سے دیکھنے لگتی ہے۔ میرے پرکھوں کے لیے آٹھ لین والی موٹر وے ناقابلِ تصور ہوگی مگر میری نسل کے لیے یہ ایک معمول کی چیز ہے۔ ہم میں سے بہت لوگوں کے لیے تو ایسی شاہراہیں شاید قدرتی، محفوظ اور اطمینان بخش ہوں گی۔

دور تک روشنی پھیلانے والی ایک بڑے شہر کی لائٹیں، بڑی سڑک کے کنارے لگی روشنی پھیلاتی آئل ریفائنری اور رات کو آسمان تک روشنی پہنچانے والے ہوائی اڈوں کے رن وے ایسے مناظر ہیں جن کے ہم عادی ہیں اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کو تو ان کا نہ ہونا عجیب سا لگے گا۔ دیگر باتوں کے علاوہ جب کچھ لوگ صارفیت میں سکون ڈھونڈنے لگتے ہیں تو ایسا ہی کچھ ہوتا ہے جو کبھی ناقابلِ تصور ہوتا ہے لیکن پھر بہت تیزی سے ہمارا معمول اور ناقابل تنسیخ بن کر ہماری روزمرہ زندگیوں کا حصہ بن جاتا ہے۔

جیسے جیسے ہم فطرت سے دور ہوتے جارہے ہیں اُتنا ہی ہمارے لیے یہ یاد رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ ہم اس کا حصہ ہیں۔ بہر کیف ہم دیگر جانوروں کی طرح ایک حیوانی جاندار ہیں۔ ہم سیارہ زمین کے اجزا سے بالاتر نہیں ہیں۔ ہم اُن کے محتاج ہیں۔ ہمارا اس سیارے پر محض اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مینڈک، بھنوروں، گینڈوں اور ہرنوں کا ہے۔

تیزی سے بڑھتا ہوا موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران ایک عالمی بحران ہے جو تمام پودوں اور جانداروں کو متاثر کررہا ہے لیکن یہ کہنا کہ تمام انسان اس کے ذمہ دار ہیں بالکل درست نہیں ہے۔

بہت سے لوگ سیارے کی حدود میں بہت اچھے سے رہ رہے ہیں۔ یہ تو ایک اقلیت ہے جس نے بحران پیدا کیا ہے اور اسے شدید کرتی جارہی ہے۔ اس لیے یہ دلیل کہ اس کے پیچھے تمام انسان ہیں، کافی گمراہ کن ہے۔ ہاں آبادی کی اپنی ایک اہمیت ہے لیکن یہ محض لوگ نہیں ہیں جو گیسوں کا اخراج کررہے ہیں اور زمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اپنی عادات اور رویوں سے مجبور کچھ اور لوگ بھی کررہے ہیں اور ساتھ میں ہمارا اقتصادی نظام بھی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔

نوآبادیاتی نظام اور غلامی، صنعتی انقلاب میں تیزی لائی تھی، اس نے گلوبل نارتھ یعنی براعظم یورپ اور امریکا کے امیر ممالک کو ناقابل تصور مقدار میں دولت دی خاص طور پر وہاں کی ایک چھوٹی سی اقلیت کو بہت زیادہ دولت مند بنادیا۔ ہمارے جدید معاشروں کی تشکیل اسی نابرابری کی بنیاد پر کی گئی اور یہی مسئلے کی جڑ ہے۔

کچھ افراد کے فائدے کی قیمت بہت سارے لوگوں کے دکھوں نے چکائی۔ اُن کی دولت کی قیمت جبر، نسل کشی، ماحولیاتی تباہی اور موسمیاتی عدم استحکام کی شکل میں ادا کی گئی اور یہ بدستور کی جاری ہے جبکہ یہ پوری ہوتی بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو ہوا اُسے بھلا کر ہم موجودہ مسائل کا حل کیوں نہ ڈھونڈیں۔ انسانی تاریخ کے پیچیدہ ترین مسائل سامنے لاکر ہم چیزوں کو مشکل کیوں بنائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بحران ایسا نہیں جو ابھی شروع ہوا ہے۔ موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران بتدریج بڑھتا ہوا بحران ہے۔ اس بحران کی بنیاد اس گھٹیا خیال پر ہے کہ بہت سے لوگوں کی قدروقیمت دیگر لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے اُنہیں حق ہے کہ دوسرے لوگوں کی زمین، وسائل، آئندہ کا رہن سہن حتیٰ کے اُن کی زندگیوں کو بھی ہتھیا لیں اور ایسا ہورہا ہے۔

کاربن کے اخراج کی قابلِ برداشت سطح کا 90 فیصد تو اب تک ہم کرہی چکے ہیں۔ اگر ہم کاربن کا اخراج مقررہ حدود تک لے آئیں تو بھی دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگر ی تک رکھنے کا امکان محض 67 فیصد ہے کیونکہ ہماری اب تک کی خارج کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا اور سمندروں میں جاچکی ہے جہاں وہ باقی رہے گی اور کرہ حیات کے توازن کو آئندہ کئی صدیوں تک خراب کرتی رہے گی بلکہ ایسے مقام تک لے جائے گی کہ جہاں سے واپسی مشکل ہوجائے گی۔

یہ بات تو واضح ہے کہ قابلِ اخراج کاربن کی محفوظ سطح کا 90 فیصد اخراج کا معاملہ ہماری موسمیاتی مذاکرات کا مرکزی نکتہ ہونا چاہیے یا کم از کم عالمی موسمیاتی بات چیت میں اُس کا ذکر ہوتے رہنا چاہیے لیکن جو کچھ ہورہا ہے وہ اس سب کے برعکس ہے۔ دیگر فیصلہ کُن معاملات کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخی ذمہ داری کو گلوبل نارتھ یعنی امیر ممالک مکمل طور پر نظر انداز کررہے ہیں۔

کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ موسمیاتی بگاڑ بہت پہلے ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تب جو لوگ اقتدار میں تھے اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ جو توانائی کے نظام وہ بنارہے ہیں اور بڑے پیمانے پر پیداوار وہ کررہے ہیں، اُس سے ایسے سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ تھے۔ شواہد واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا کی بڑی موبل آئل کمپنیاں کم سے کم چار دہائیوں قبل اس بات سے آگاہ تھیں کہ جو کچھ وہ کررہی ہیں اُس کا دنیا پر کیسا منفی اثر پڑے گا۔

یہ بھی بڑے وثوق سے کہا جاتا رہا ہے کہ دنیا کی اقوام بھی یہ بات جانتی تھیں اور تو اور یہ بات بھی سچ ہے کہ اب تک کا انسانی سرگرمیوں سے ہونے والا 50 فیصد سے زائد کاربن کا اخراج 1992ء کے بعد ہوا۔ یہ وہ سال ہے جب ریو ڈی جنیریو میں اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (IPCC) بنا تھا۔ یعنی تب بھی پوری دنیا جانتی تھی کہ کیا ہونے جارہا ہے۔

یعنی یہ بات 20ویں صدی کے وسط سے ہی واضح تھی آگے کیا ہونے جارہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس بات میں بہت سے ابہام بھی تھے اور معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا لیکن میں یہ پھر سے کہوں گی بہت سارے معاملات بالکل واضح تھے۔

آپ یا تو کسی پہاڑ سے نیچے گرتے ہو یا نہیں گرتے ہو، سب کو ووٹ دینے کی اجازت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ہے، عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق ملتے ہیں یا نہیں ملتے ہیں یعنی ہم معاہدہ پیرس میں دیے گئے موسمیاتی اہداف کے اندر رہیں گے اور انسانی کنٹرول سے باہر اور ناقابل تنسیخ تبدیلیاں شروع ہونے کے خطرے سے بچ جائیں گے یا پھر اہداف کے اندر نہیں رہ کر اس کا خمیازہ بھگتیں گے۔

یہ معاملات اتنے ہی واضح ہیں جتنے کہ یہ ہوسکتے ہیں۔ اب جب بات ماحولیاتی اور موسمیاتی بحران کی ہو تو خود کو بدلنے کی ضرورت کے ہمارے پاس ناقابلِ انکار سائنسی شواہد موجود ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے تمام شواہد موجودہ اقتصادی نظام سے متصادم ہیں اور اُس طرز زندگی سے بھی متصادم ہیں جسے امیر ممالک اپنا حق سمجھتے ہیں۔

مجبوریاں اور بندشیں کچھ اور ہوتی ہیں جبکہ جدید طرز زندگی کچھ اور ہے۔ اس کی مثال کورونا کی وبا کے دوران لگائی گئی بندشوں پر دنیا کے کچھ ممالک میں ہونے والا ردعمل ہوسکتا ہے۔

آپ بالکل یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ سائنسی افکار اور خیالات اُس معاملے پر متفقہ نہیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سائنسدانوں نے اپنے نتائج پر مباحثوں میں بہت سارا وقت صرف کیا ہے اور سائنس اسی طرح کام کرتی ہے۔ یہ دلیل بہت سے دیگر معاملات میں بھی دی جاسکتی ہے لیکن موسمیاتی بحران کے معاملے میں یہ دلیل نہیں دی جاسکتی کیونکہ تباہی شروع ہوچکی ہے۔ کسی بھی سائنسی نظریے میں جوں جوں مزید پیش قدمی ہوتی ہے، اتنا ہی وہ ٹھوس ہوتا جاتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ سائنسدان کسی بھی معاملے کو بگاڑنے کا باعث کیسے بن سکتے ہیں۔ کیا سائنسدانوں کو سیاستدانوں کی تجاویز کی تعریف کرنی چاہیے، وہ بھی صرف اس لیے کیونکہ وہ کسی بہتری کے لیے نہیں ہیں یا اس لیے کہ ایسا کرنے سے وہ جس منصب پر ہیں اُسی پر رہیں گے۔ یا پھر سائنسدانوں کو خبردار کرنے والے بننے کا رسک لینا چاہیے اور جو سچ ہے وہ بتا دینا چاہیے، خواہ اس کے بعد بحران کے آگے ہتھیار ڈالنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔

کیا اُنہیں یہ نہیں بتانا چاہیے کہ اب بھی گلاس آدھا بھرا ہوا ہے یا انہیں حقائق سے روگردانی کرنے کے حربے آزماتے ہوئے سچ کو چھپائے رکھنا چاہیے۔ یا بیک وقت دونوں کام کرتے رہنا چاہئیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تاویلیں باقی رہ جاتی ہیں اور تباہی سب ختم کردیتی ہے۔

آج کے دور کا ایک بڑا تنازع یہ بھی ہے کہ جتنا کاربن اب تک ہم خارج کرچکے ہیں اُسے بھی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی اپنی آئندہ منصوبہ بندی میں پیش نظر رکھنا چاہیے یا نہیں کیونکہ خارج کردہ کاربن کی مقدار کا حساب عالمی موسمیاتی اداروں سے ہٹ کر لگایا گیا ہے ۔اس لیے کوئی شبہ نہیں کہ اُسے نظر انداز محض اس لیے کیا جارہا ہے کیونکہ وہ پہلے سے ہی مایوس کن صورتحال کو مزید مایوس کن بنادے گا۔ جو اُس مقدار کو آئندہ کی منصوبہ بندی میں شامل کرنا چاہتے ہیں اُنہیں ڈرانے والے کہا جارہا ہے حالانکہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

مثال کے طور پر اسپین، امریکا اور فرانس کے 2050ء تک صفر اخراج کا ہدف اب تک کے مجموعی اخراج کی تلافی کیے بغیر حاصل کرنا نامناسب ہوگا لیکن اگر آپ ایک امریکی سائنسدان ہوں اور اپنے ملک کے سامعین کی بڑی تعداد تک رسائی چاہتے ہیں تو پھر تو آپ 2050ء تک صفر اخراج کے ہدف کو ناکافی قراردینے والی بات کو رد کرنے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کریں گے۔

اگلی تین دہائیوں میں کاربن کے صفر اخراج کے ہدف کو امریکا میں ویسے ہی دور رس کہا جاتا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاہدہ پیرس پر عمل کرنے کے لیے ہمیں کاربن کے اب تک کے مجموعی اخراج کو بھی دیکھنا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

ہم شکار اکٹھا کرنے والے اپنے آباؤاجداد کے دور سے بہت دور نکل آئے ہیں لیکن ہماری جبلت آج کے دور کے مطابق اب تک نہیں ڈھل سکی۔ انسان اب بھی اسی انداز سے رہنا چاہتا ہے جیسا کہ 50 ہزار سال پہلے رہتا تھا جب نہ ہم نے زراعت جدید کی تھی، نہ مکانات تعمیر کیے تھے نہ ہمارے پاس نیٹ فلیکس اور سپر مارکیٹس تھیں۔

ہم میں سے بہت سے اب بھی ایسے خطرات پر ردعمل فضول سمجھ رہے ہیں جو اُن کے مطابق اتنی جلدی نہیں آنے والے ہیں یعنی موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران۔ یہ وہ خطرات ہیں جو ہم ٹھیک سے نہیں دیکھ پارہے ہیں کیونکہ یہ بہت پیچیدہ ہیں اور بہت آہستہ آہستہ تو آرہے ہیں مگر ہمیں بہت دور تک لے جائیں گے۔

ارضیاتی تاریخ کے اعتبار سے انسان کا ارتقا بجلی کی سی تیزی سے ہوا ہے اور یہی بات ہمیں خوفزدہ کررہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ صنعتی انقلاب شروع ہونے سے دسیوں ہزاروں سال پہلے ہماری بنیاد کسی غیر مستحکم مادے پر رکھی گئی ہو۔ کیا ہمیں بطور جاندار کچھ زیادہ ہی عطا کردیا گیا کہ ہم اپنے بھلے سے بھی کہیں زیادہ کی سوچتے ہیں؟ یا ہم خود کو بدل سکتے ہیں؟

کیا ہم اپنی مہارتیں، علم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ایسا ثقافتی بدلاؤ لاسکیں گے جو ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلے گا تاکہ ہم ماحولیاتی اور موسمیاتی بحران سے نمٹ سکیں؟ ہم واضح طور پر ایسا کرنے کے قابل ہیں لیکن ہم ایسا کرتے ہیں یا نہیں، اس کا دارومدار مکمل طور پر ہم پر ہے۔

مجتبیٰ بیگ

لکھاری معروف ماحولیاتی مصنف اور مترجم ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔