چین اور برازیل کا یوکرین امن منصوبہ، ولادیمیر زیلنسکی کا اظہار برہمی
چین اور برازیل نے یوکرین میں روس کی جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو اکٹھا کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے, جبکہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس اقدام کو ماسکو کے مفادات قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ولادیمر زیلنسکی نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں چین اور برازیل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یوکرین کو امن معاہدے کو قبول کرنے پر مجبور کرنا زبردستی کے مترادف ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی اور برازیل کی خارجہ پالیسی کے مشیر سیلسو اموریم کی زیر صدارت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر 17 ممالک نے شرکت کی۔
وانگ یی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے جنگ میں اضافوں کو روکنے، تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال سے بچاؤ اور جوہری بجلی گھروں پر حملوں کو روکنے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔
وانگ یی نے کہا کہ روس اور یوکرین ہمسایہ ممالک ہیں جنہیں ایک دوسرے سے دور نہیں کیا جا سکتا اور ہم آہنگی ہی واحد راستہ ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو روس اور یوکرین دونوں کی شمولیت سے بین الاقوامی امن کانفرنس کی حمایت کرنی چاہیے۔
برازیل اور چین کے علاوہ انڈونیشیا، جنوبی افریقہ اور ترکیہ سمیت 10 ممالک نے اعلامیے پر دستخط کیے جس کے بارے میں سیلسو اموریم نے کہا کہ یہ مئی میں برازیل اور چین کی جانب سے پیش کردہ 6 نکاتی منصوبے پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ممالک بطور ’امن دوست‘ گروپ کے تحت نیویارک میں ملاقاتیں جاری رکھیں گے۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دونوں ممالک نے یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے کسی استعمال یا دھمکیوں کے خلاف مشترکہ بیان دیا۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں بالخصوص جوہری ہتھیاروں اور کیمیائی اور ہتھیاروں کے استعمال یا خطرے سے گریز کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
روسی صدر نے رواں ہفتے دھمکی دی تھی کہ روسی سرزمین پر کسی بڑے حملے کی صورت میں وہ جوہری ہتھیار استعمال کریں گے کیونکہ یوکرین سرحد پار حملہ کرنے کے لیے مغربی ہتھیاروں کی تلاش میں ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے 2022 میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
بیجنگ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا اس نے روس کو یوکرین میں استعمال کے لیے ہتھیار فراہم نہیں کیے لیکن مغربی ممالک دعویٰ کرتے ہیں کہ بیجنگ کی کمپنیاں روس کو وہ مواد فراہم کرتی ہیں جو وہ جنگ کے لیے ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کرتا ہے۔