آئی ایم ایف بورڈ کا قرض پروگرام پر مکمل عملدرآمد، ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے پر زور
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے 7 ارب ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکج پر ’مکمل عملدرآمد‘ کے ساتھ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر زور دیا ہے۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے یہ بات پاکستان کے لیے 37 ماہ کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) قرض پروگرام کی منظوری کے بعد ہفتے کے روز جاری ایک بیان میں کہی، جس کے تحت اس نے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی گئی ہے۔
1958 سے اب تک حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ 24 ویں قرض پروگرام کے لیے جولائی میں معاہدہ ہوا تھا، جس میں غیر مقبول اصلاحات اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنا بھی شامل ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے جولائی میں قرض کا معاہدہ طے ہونے کے بعد کہا تھا کہ اس پروگرام کو آخری پروگرام سمجھا جانا چاہیے۔
وزارت خزانہ نے نئے قرضے کی منظوری کے لیے آئی ایم ایف حکام کے ساتھ کئی مہینوں تک تگ و دوکی، یہ قرضہ اصلاحات کی شرط پر منظور کیا گیا ہے جن میں بحران کا شکار توانائی کے شعبے کو مستقل طور پر حل اور بجلی کے بلوں اور ٹیکس وصولیوں میں اضافہ شامل ہے۔
پاکستان کے ساتھ مشاورت اور بیل آؤٹ کی منظوری کے بعد جاری ہونے والے حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نےخصوصاً اضافی مالی اعانت حاصل کرنے اور مارکیٹ تک رسائی کو بحال کرنے کے لیے صلاحیت میں اضافے اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ قریبی تعاون کی مدد کے ساتھ پروگرام پر مکمل طور پر عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹرز نے منصفانہ ٹیکس نظام کی جانب اٹھائے گئے اقدامات کا خیر مقدم کیا اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور ٹیکس منیجمنٹ مؤثر کر کے اضافی محصولات جمع کرنے کی کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔
ایک ہفتہ قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹیکس کے نفاذ اور تعمیل کے لیے سخت اقدامات کی منظوری دی تھی جس میں نان فائلرز کے لیے تمام بینکنگ اور مالی لین دین پر پابندی شامل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ تین سے چار سالوں میں ایک جامع اصلاحاتی منصوبہ نافذ کیا جائے گا جس میں ڈیجیٹل انوائسنگ، ٹیکس ریٹرنز کا آڈٹ، کارکردگی کی بنیاد پر بونس اور حوصلہ افزائی کے لیے دستاویزی انعامی اسکیم شامل ہے۔
آئی ایم ایف بورڈ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس نئے پروگرام کو میکرو اکنامک استحکام کو مستحکم کرنے، چیلنجوں سے نمٹنے اور جامع ترقی کے حالات پیدا کرنے اور حکام کی جاری کوششوں کی حمایت کے لیے ٹھوس پالیسیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ترقیاتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے مسلسل مضبوط مالی معاونت بھی اس پروگرام کے مقاصد کے حصول کے لیے اہم ہوگی۔
آئی ایم ایف کے حکام نے رواں ہفتے کہا تھا کہ پاکستان کو چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے اضافی فنانسنگ کی یقین دہانیاں مل گئی ہیں۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے تسلیم کیا کہ ملک نے 24-2023 اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے (ایس بی اے) کے تحت مستقل پالیسی کے نفاذ کے ساتھ معاشی استحکام کی بحالی کے لئے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔
بیان میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ نئے ای ایف ایف پروگرام کے تحت اہم ترجیحات میں (i) پالیسی سازی کی ساکھ کی بحالی اور مضبوط میکرو پالیسیوں کی پائیداری اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے ذریعے میکرو اکنامک استحکام، (ii) مسابقت بہتر بنانے اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے اصلاحات کو آگے بڑھانا، (iii) سرکاری ملکیتی اداروں میں اصلاحات اور (iv) کلائمٹ ریزیلینس شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 2024 میں شرح نمو میں 2.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ افراط زر میں نمایاں کمی آئی ہے، بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ اور زرمبادلہ کی مارکیٹ کے پرسکون حالات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے ہیں، اسی طرح مہنگائی میں کمی اور مستحکم ملکی اور بیرونی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی جون سے اب تک پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 450 بیسس پوائنٹس کی کمی کی ہے۔
تاہم آئی ایم ایف بورڈ نے غور کیا کہ اس پیش رفت کے باوجود پاکستان کو اسٹرکچرل چیلنجز شدید ہیں۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ مشکل کاروباری ماحول، کمزور گورننس اور ریاست کاکردار سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ہے جو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے جبکہ ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے جو ٹیکس کی شفافیت، مالی استحکام اور پاکستان کی بڑی سماجی اور ترقیاتی اخراجات کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔
آئی ایم ایف نے خبردار کرتے ہوئےکہا کہ مربوط ایڈجسٹمنٹ اور اصلاحات کی کوششوں کے بغیر پاکستان دیگر ممالک سے مزید پیچھے رہ سکتا ہے۔