دفاتر کی میٹھی چھریاں اور انکاریے
جرم، سزا اور قتل کی تفتیش پر مبنی سیریز اور فلمیں دیکھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ خود بھی اکثر ’چوکس‘ رہتا ہے اور خواہ مخواہ ہر ملنے والے کی پروفائل دماغ میں بننے لگتی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مشاہدہ تیز ہو جاتا ہے اور مجبوراً سوچنا پڑتا ہے کہ سامنے والا بندہ جیسا ہے ویسا کیوں ہے۔ اس کا ماضی کیا رہا ہوگا اور وہ مستقبل میں کیا کیا گُل کھلانے لائق کام کر سکتا ہے۔
اگر ذرا غور کیا جائے تو دفتری معاملات سے نمٹنے والے خواتین و حضرات کے سامنے ایسے لاتعداد کیسز آتے ہیں جن میں سے کچھ کیس درج ذیل ہیں۔
بتونگڑے
خواتین خواہ مخواہ ہی بدنام ہیں کہ وہ زیادہ بولتی ہیں۔ اکثر مرد اتنا بولتے ہیں کہ اگلے کے کانوں سے دھواں نکل آتا ہے لیکن ان کی باتوں کا کنواں خالی نہیں ہوتا۔
بات شروع ہوتی ہے موٹر سائیکل کی چین اترنے سے اور ان کے پُھپا کی سالی کے بھانجے کے بچے سے ہوتی ہوئی سلمان خان کی نہ ہونے والی شادی کو ہاتھ لگاتی ہوئی ملک چھوڑ کر جانے پر ختم ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو بتونگڑے بہ وزن بلونگڑے اور بچونگڑے کی درجہ بندی میں رکھا جاتا ہے۔
تساہل عارفانہ (روحانی)
کاہلی اور سستی دکھانے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا دنیا میں وہ واحد مقام ہے جسے پانے کے لیے انسان کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ بس آدمی کچھ نہ کرے تو یہ رتبہ اور مقام جادوئی طور پر خود اس کی طرف کھچا چلا آتا ہے۔
ایسے لوگ پیدائشی طور پر مجبور ہوتے ہیں۔ مجبوری میں نوکری کرتے ہیں، دفتر آتے ہیں اور کچھ گھنٹے جگہ گھیر کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کی میز پر مکھیوں کے بچے اُڑنا اور مکڑیوں کے بچے اپنی امیوں سے جالے بُننا سیکھتے ہیں۔ اس مجبوری میں بھی لیکن وہ کسی جاندار کا فائدہ ضرور کر جاتے ہیں، بس وہ انسان نہ ہوں۔
تساہل عارفانہ (اختیاری)
یہ ظالم قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ خود تو کچھ نہیں کرتے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کام کرنے سے روکتے ہیں اور اگر کسی کا کام بننے لگے تو اس میں روڑے، بجری، سیمنٹ اور سریا سب کچھ اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی کام پڑ جائے سوکھے منہ سے ایسا گیلا بہانہ بناتے ہیں کہ اگلے کا دنیا سے رہا سہا اعتبار بھی اٹھ جاتا ہے۔
درخواست گزار کا بس نہیں چلتا کہ سب کچھ تیاگ کر جنگلوں ویرانوں میں چلا جائے کہ دنیا تو فانی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کے ماتحت بھی ہوں تو یہ ان کو بھی وقت پر دوسروں کا کام کرنے سے منع کر دیتے ہیں کہ فدوی مزید تین چار مرتبہ گزارش کرے گا تو پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔
کیسیا
ایسے لوگ بذاتِ خود ایک کیس ہوتے ہیں اور ہر وقت کسی کیس میں پھنسے رہتے ہیں۔ ان کے ذمے اکثر کوئی کام نہیں ہوتا اور یہ بقلم خود ہر کسی کے ’ذمے‘ ہوتے ہیں۔
یہ کبھی کسی سے درخواست لکھوا رہے ہوتے ہیں اور کبھی ادارے کی طرف سے 72 گھنٹوں کے اندر اندر جواب دہی کے لیے ملنے والے پریم پتر کا جواب کسی کے دماغ کی دہی بناتے ہوئے لکھواتے پائے جاتے ہیں۔ ان کے افسران بھی ان سے کوئی کام نہیں لیتے کہ کہیں ان کے ذمے ہی کوئی کیس نہ پڑ جائے۔
میٹھی چھری
یہ دفاتر کے سب سے کامیاب لوگ ہوتے ہیں۔ دو لوگوں کے مابین کوئی مسئلہ ہو تو یہ دونوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اکثر اپنی جادوئی شخصیت کی مدد سے مسئلہ حل بھی کروا دیتے ہیں۔
دوسرے شعبوں میں ان کے واقف ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں جو کام پڑنے پر ان کی پیٹھ کھجانے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ اپنے ذمے کا کام بھلے نہ کریں لیکن دوسروں کو ناراض بھی ہونے نہیں دیتے۔ ان کے مخصوص تکیہ کلاموں میں ’آپ فکر ہی نہ کریں‘ کے ساتھ ساتھ ’میں حاضر بادشاہو‘ اور ’میں خادم بھائی جان‘ اکثر سنائی دیتا ہے۔
انکاریے
جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ ایسے لوگ اس فلمی کردار کی طرح ہوتے ہیں جس کا پوری فلم میں ایک ہی ڈائیلاگ ہوتا ہے کہ ’یہ شادی نہیں ہو سکتی‘۔ ان کے پاس کوئی کام بھی لے جائیں یہ سب سے پہلے چٹے سفید انکار سے آپ کا سواگت کریں گے۔ اس کے بعد ’ہے تو مشکل لیکن دیکھتے ہیں‘ کا شوگر فری لالی پاپ آپ کو پکڑا کر چلتا کردیں گے۔ ایسے لوگوں کے پاس بار بار جانے کی بجائے اگر اوپر سے فون کروایا جائے تو ہی کام بنتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ کے ذہن میں ان کے علاوہ بھی ایسے لوگوں کی فہرست موجود ہوگی۔ آپ بھی تحقیق جاری رکھیں تاکہ نئے آنے والے لوگوں کو دفاتر میں موجود ایسی ہستیوں کا بروقت ادراک ہو اور نوکریوں سے ان کا دل اچاٹ ہوجائے۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔