پاکستان

’پرانے قوانین‘ ڈیجیٹل میڈیا ورکرز کو تحفظ فراہم نہیں کرتے، رپورٹ

تمام صحافیوں کے تحفظ کے لیے جامع قوانین کی اشد ضرورت ہے، انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈیولپمنٹ

ڈیجیٹل میڈیا کے 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد ملازمین مناسب قانونی تحفظ کے بغیر کام کر رہے ہیں، جس میں مناسب اجرت اور کام کے بہتر ماحول جیسے مسائل شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان مشاہدات کا انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈیولپمنٹ (ایراڈا )کی قانونی بریفینگ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل جرنلزم کی طرف ٹرانسفارمیشن میں حکومت لیبر قوانین میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے، قانونی طور پر تسلیم نہ ہونے کے سبب ڈیجیٹل صحافیوں کے حقوق کو نقصان پہنچا ہے۔

بریفنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایراڈا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد آفتاب عالم نے کہا کہ تمام صحافیوں کے تحفظ کے لیے جامع قوانین کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ قانون ’دی نیوز پیپرز ایمپلائز ایکٹ (نیکوسا) 1973‘ میں اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔

محمد آفتاب عالم کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جدید ٹیکنالوجی کے سبب پرنٹ میڈیا سکڑ رہا ہے اور ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ صحافیوں کوقانونی تحفظ میسر نہیں۔

ایراڈا کا فریفنگ میں کہنا تھا کہ نیکوسا اخبار کے صحافیوں کو فوری برطرفی سے تحفظ کے حقوق بھی فراہم کرتا ہے، تاہم ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والے صحافیوں کو سماجی تحفظ اور پنشن جیسے فوائد میسر نہیں۔

محمد آفتاب عالم کے مطابق صحافیوں کو درپیش یہ صورتحال ان کو مؤثر انداز سے اپنے فرائض کو سرانجام دینے میں خلل ڈالتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے زیادہ تر براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل جرنلسٹ فریقین کے ساتھ مختلف نوعیت کے معاہدوں سے بھی محروم ہیں۔

بریفنگ میں موجودہ قوانین میں خامیوں اور ان پر عمل درآمد کے فقدان پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

رپورٹ میں اخبارات کے ملازمین کی تنخواہوں کا تعین کرنے کے لیے نیکوسا کے تحت قائم کیے گئے ’دی ویج بورڈ‘ کو بھی ناکافی قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک 8 ویج بورڈ ایوارڈکو گرانٹس دیئے جا چکے ہیں، آٹھواں ایوارڈ دسمبر 2019 میں طے کیا گیا تھا، جومارچ 2020 میں شائع ہوا تھا اور فروری 2020 میں نافذ ہوا، تاہم چار سال بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

ویج بورڈ کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے 1976 میں قائم کیے گئے امپلی منٹیشن ٹریبونل فار نیوز پیپر ایمپلائز (آئی ٹی این ای ) میں بھی اسی طرح کی خامیاں ہیں، گزشتہ دہائی میں آئی ٹی این ای نے 2783 کیسز نمٹائے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ میڈیا میں کام کرنے والے افراد کو صحافی اور میڈیا پروفیشنلز کے طور پر تسلیم کرتا ہے، تاہم براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کوملازمت کے خاطر خواہ حقوق میسر نہیں ہیں۔

بریفنگ میں انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کے صحافیوں کو برطرفی سے بچاؤ کے لیے قانونی تحفظ کی سفارش کی گئی۔

پاکستان میں صحافیوں کے حقوق سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں قانونی بریفنگ پیش کی جائے گی، عدالت کی ویب سائٹ پر موجود کاز لسٹ کے مطابق یہ کیس جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

یہ مقدمہ 2021 میں اس وقت شروع کیا گیا تھا جب انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے پاکستان کے صحافیوں کے حقوق پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق ایک خط لکھا تھا۔

محمد آفتاب عالم نے امید ظاہر کی کہ عدالت صورتحال کی نزاکت کو تسلیم کرے گی اور حکومت کو قانونی اصلاحات کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کرے گی۔