پاکستان بھر میں خطرناک ’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ پھیلنے لگا
اینٹی بائیوٹکس سمیت دیگر ادویات کو بے اثر کرنے والے ٹائیفائیڈ بخار کی خطرناک قسم ’ایکس ڈی آر‘ ملک بھر میں ایک بار پھر تیزی سے پھیلنے لگی۔
’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ ملک بھر میں پہلی بار 2016 میں سامنے آئی تھی، بخار کی یہ قسم ٹائیفائیڈ سمیت دیگر ادویات کو بے اثر کردیتی ہے۔
پاکستانی صحافی مصباح خان کی بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کے اشتراک سے ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق ’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ کے اب تک پاکستان بھر میں 15 ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
خطرناک قسم کے ٹائیفائیڈ بخار سے عام طور پر کم عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں جو کئی ماہ تک زیر علاج رہتے ہیں، ان پر ادویات بھی اثر نہیں کرتیں۔
مذکورہ خطرناک قسم سے اموات میں بھی اضافہ ہوا اور تقریبا ہر پانچ میں سے ایک مریض جان کی بازی ہار رہا ہے۔
پاکستان میں اس کی تشخیص کے بعد اب ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ بھارت، چین، امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے 20 ممالک میں بھی رپورٹ ہونے لگا ہے اور کئی ممالک نے اس بخار کے پیش نظر پاکستان کے سفر سے متعلق اہم ہدایات بھی جاری کر رکھی ہیں۔
ٹائیفائیڈ کی مذکورہ قسم پر تقریبا تمام اینٹی بائیوٹک ادویات بے اثر ہوتی ہیں، تاہم ماہرین اس بخار میں مبتلا بچے کے متعدد ٹیسٹس کرنے کے بعد علامات کو دیکھتے ہوئے ایسی اینٹی بائیوٹکس تلاش کرلیتے ہیں جو اس بخار پر آہستہ آہستہ اثر انداز ہونے لگتی ہیں۔
ٹائیفائیڈ کی مذکورہ قسم کی تشخیص بھی پاکستان بھر میں ایک سنگین مسئلہ رہی ہے اور خصوصی طور پر دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں اس کی تشخیص مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ وہاں پر لیباٹریز کا فقدان پایا جاتا ہے جب کہ مہنگائی کی وجہ سے بھی لوگ اس کے ٹیسٹس نہیں کرواتے۔
ماہرین صحت نے ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے بڑھنے اور مزید خطرناک بننے کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اس پر قابو پانے کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔