نقطہ نظر

اسلامی بینکاری کی کارکردگی میں نمایاں بہتری، کیا شرعی نظام پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے؟

شریعت پر مبنی بینکاری ایک دہائی میں کافی حد تک تیزی سے ترقی کرچکی ہے جبکہ یہ منافع کے معاملے میں روایتی بینکاری کو بھی پیچھے چھوڑ رہا ہے۔
|

گزشتہ 10 سال سے پاکستان کا بینکنگ سیکٹر ایک بہت بڑی تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ وہی تبدیلی جس کے ذریعے ’ربا سے پاک بینکاری‘ پاکستان کے مالیاتی نظام میں اپنی مخصوص جگہ بہت تیزی سے بنا رہی ہے۔

شریعت پر مبنی بینکاری جو کسی دور میں مالیاتی نظام کا ایک چھوٹا پیادہ تصور کیا جاتا تھا، اب کافی حد تک ترقی کرچکا ہے اور اس کی ترقی کی رفتار میں تیزی آرہی ہے جبکہ یہ منافع کے معاملے میں روایتی بینکاری کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔

جون تک اسلامی بینکاری کے اثاثے 97 کھرب روپے تک پہنچ چکے تھے جوکہ مجموعی طور پر بینکنگ انڈسٹری کا 18.7 فیصد ہے۔ اس 18.7 فیصد میں سے 12.3 فیصد یا 64 کھرب روپے اداروں کا حصہ ہے جبکہ 6.4 فیصد یا 32 کھرب روپے عام بینکوں کی اسلامی شاخوں سے موصول ہونے والا حصہ ہے۔

ایک دہائی قبل یہ تناسب 10.4 فیصد ہوا کرتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو اسلامی بینکنگ اور عام بینکوں کی اسلامی شاخوں دونوں نے ہی تیزی سے بینکنگ سیکٹر میں مقبولیت حاصل کی ہے جبکہ ان کی کارکردگی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک دہائی کے عرصے میں اسلامی بینکاری اور اسلامی شاخوں کا سالانہ ترقی کا تناسب بالترتیب 24.8 اور 23.8 فیصد رہا جبکہ اس کے مقابلے میں روایتی بینکوں میں سالانہ ترقی کا تناسب 15.4 فیصد رہا۔

2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے پاکستان کے بینکاری کے نظام میں سرمایہ کاری کو اہمیت دی گئی۔ سیکٹر نے صارفین اور کاروباروں کو قرض دینے کے بجائے حکومت کو قرضے دینے کو ترجیح دی۔ حکومت کی مالیاتی ضرورتوں کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں سے اس رجحان میں ہم مزید تیزی دیکھ رہے ہیں۔ دوسری جانب صارفین اور کاروباروں کو قرضے دینے کی پالیسی پر عمل در آمد کم ہوگیا جوکہ جون تک مجموعی اثاثہ جات کے ایک چوتھائی سے بھی کم دیکھا گیا۔

اگرچہ بینکوں میں رقم جمع کروانے اور سرمایہ کاری کا تناسب 95.2 فیصد ہے لیکن اس کے باوجود ہم گزشتہ مہینوں کے مقابلے میں ان میں نمایاں فرق دیکھتے ہیں۔ جون تک کے اعداد کے مطابق عام بینکوں میں سرمایہ کاری اور رقم جمع کروانے کا تناسب 105.2 فیصد تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو رقم دینے کے لیے بینکس اب دیگر مالیاتی اداروں (بشمول اسٹیٹ بینک) سے رقم قرض پر لے رہے ہیں۔ اس کے برعکس روایتی بینکوں کی اسلامی شاخوں میں رقم جمع کراونے اور سرمایہ کاری کا تناسب 58.5 فیصد ہے جبکہ اسلامی بینکاری میں یہ تناسب تھوڑا زیادہ یعنی 62.3 فیصد ہے۔

یہ متوقع طور پر مالیاتی صورت حال پر منحصر ہے۔ جون 2014ء میں روایتی بینکاری اپنے پاس جمع رقم کا 49.3 فیصد قرضے کے طور پر دیا کرتے تھے لیکن اب یہ تناسب کم ہوکر 34.3 فیصد ہوگیا ہے۔ اس کے موازنے میں اسلامی بینکاری میں پیش رفت ہوئی جہاں جمع شدہ رقم سے قرضے دینے کا تناسب مارچ 2019ء میں 71.8 فیصد تک بلند رہا جبکہ عام بینکوں کی اسلامی شاخوں میں مارچ 2022ء میں یہ 69.8 فیصد دیکھا گیا۔

اس کے بعد سے جمع شدہ رقم سے قرضے دینے کے تناسب میں نمایاں کمی آئی جوکہ اسلامی بینکاری میں 48.1 فیصد ہوگیا جبکہ عام بینکوں کی اسلامی شاخوں میں 44.4 فیصد ہوگیا۔ زیادہ پالیسی ریٹ کی وجہ سے بینکس قرضے دینے سے ہچکچا رہے تھے لیکن چونکہ اب شرحِ سود کم ہورہی ہے تو ایسے میں امید ہے کہ قرضے دینے کی شرح میں اضافہ ہوگا۔

بینکوں میں رقم جمع کروانے میں بھی اسی طرح کا رجحان دیکھنے میں آیا جہاں گزشتہ 10 برس میں جمع شدہ رقم کے معاملے میں اسلامی بینکاری کے اکاؤنٹس میں اوسط سالانہ 23.1 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جبکہ روایتی بینکوں کی اسلامی شاخوں میں یہ تناسب 22.7 فیصد رہا۔ یہ روایتی بینکوں میں ہونے والی 12.4 فیصد ترقی کے تقریباً دگنا تیز ہے۔ جون تک روایتی بینکوں میں کُل جمع شدہ رقم 325 کھرب روپے تھی جس میں اسلامی بینکاری کا حصہ 22.6 فیصد تھا جوکہ 2014ء کی اسی مدت میں 10.6 فیصد تھا۔

اس کا مطلب واضح طور پر یہی ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اسلامی بینکاری کی جانب مبذول ہورہی ہے پھر چاہے وہ خصوصی اسلامی بینک ہوں یا عام بینکوں کی اسلامی شاخیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ شریعت پر مبنی بینکنگ میں سرمایہ کاری کرنے میں بھروسہ کررہے ہیں؟ تاہم اس کی ایک اور وضاحت بھی ہوسکتی ہے۔ اسلامی بینکوں نے اپنے نیٹ ورک کو نمایاں طور پر وسعت دی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے ان تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔

رواں سال مارچ تک اسلامی بینکاری اور عام بینکوں کی اسلامی شاخوں نے بینکوں کی مجموعی آمدنی میں 30.5 فیصد تک حصہ ڈالا جبکہ جون 2014ء میں یہ محض 12.1 فیصد تھا۔

اسلامی بینکوں کے نیٹ ورک میں تین گنا اضافہ ہوا جن کی برانچز 868 سے 2 ہزار 806 ہوگئیں جبکہ عام بینکوں کی اسلامی شاخوں میں بھی 391 فیصد اضافہ ہوا جوکہ اسی عرصے میں 467 سے 2295 شاخوں تک پہنچ گئیں۔ اس کے مقابلے میں اگر عام بینکوں کی بات کی جائے تو ان کی برانچز میں 19.9 فیصد کا اضافہ ہوا یعنی ایک دہائی میں 9 ہزار 649 سے اس کی برانچز 11 ہزار 577 تک پہنچ گئیں۔

کیا مالیاتی ادارے اپنے اسلامی نیٹ ورک کو اس لیے وسعت دے رہے ہیں کیونکہ لوگ اپنا پیسہ شریعت کے مطابق بینکنگ میں ڈپازٹ کرنا چاہتے ہیں یا اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے دباؤ کی وجہ سے نئی نئی برانچز تیزی سے اسلامی ہوتی جا رہی ہیں؟ یہ فیصلہ اب آپ کو کرنا ہے کہ مرغی پہلے آئی تھی کہ انڈا۔

اب تک کے تمام اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلامی بینکاری نے مجموعی بینکنگ سیکٹر میں انتہائی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم ایک سیکٹر جہاں روایتی بینک آگے ہیں وہ صارفین سے فنڈز اکٹھا کرنا ہے۔ رواں سال مارچ تک فی برانچ اوسط ڈپازٹ 1.96 ارب روپے تھا۔ یہ اسلامی بینکاری کے 1.6 ارب روپے اور عام بینکوں کی اسلامی شاخوں کے 1.1 ارب روپے سے زیادہ ہے جبکہ گزشتہ دہائی کے دوران اس فرق میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

برانچ کی سطح پر آپریشنل کارکردگی سے قطع نظر، اسلامی بینک اب بینکاری کے مجموعی منافع میں بڑا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مالی سال 2024ء کی پہلی ششماہی میں بینکنگ سیکٹر کی مجموعی آمدنی میں اسلامی بینکاری نے 27.8 فیصد حصہ ڈالا جبکہ عام بینکوں کی اسلامی شاخوں کی آمدنی 20.8 فیصد رہی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مجموعی شیئرز کی بیلنس شیٹ اور برانچ نیٹ ورکس میں ان کا حصہ 30 فیصد سے زیادہ نہیں۔

لیکن اسلامی بینکاری کی کامیابی کے پیچھے وجہ یہ نہیں کہ وہ جو خدمات فراہم کرتے ہیں دیگر بینکس نہیں کرسکتے۔ منافع کے لحاظ سے اسلامی بینکاری کی اچھی کارکردگی کی وجہ ایک ریگولیٹری اقدام ہے۔ یہاں کم از کم ڈپازٹ ریٹ کی کوئی شرط نہیں۔ اس کی وجہ سے اسلامی بینکس کو مالی بچت میں بڑا فائدہ ہوتا ہے جوکہ صارفین کے خرچ پر برداشت کی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے تمام شکایات پر ریگولیٹرز کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مطاہر خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
عبدالعزیز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔