اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کراچی میں آپریشن اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ حکومت نے طویل غور و خوض اور ہوم ورک کے بعد کیا۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں ارکان کی طرف سے کراچی کی صورتحال پر ردعمل کے طور پر وزیر داخلہ نے کہا کہ کراچی آپریشن وفاقی حکومت کے ایماء پر شروع ہوا۔
' ہم صوبائی حکومت، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سمیت تمام جماعتوں سے الگ الگ رابطہ میں ہیں اور مسلسل مشاورت کا عمل جاری ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے حالات آسان نہیں، ہم نے آغاز کیا ہے، رابطہ کاری اور نگرانی بھی وفاقی حکومت کر رہی ہے، مگر صبح شام ٹی وی پر آ کر اس کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ جب دو اڑھائی ماہ قبل انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس میرے سامنے آئیں تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
'وفاق اور سندھ میں الگ الگ حکومتیں قائم ہیں۔ ہمارے درمیان کوآرڈینیشن کی ستائش ہونی چاہئے، یہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف صوبہ سندھ کی ترقی کی خواہش رکھتے ہیں۔'میں نے وزیر اعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ سے کہا کہ اچھا کام ہو تو کریڈٹ آپ لے لیں اگر کوئی غلط ہو تو ہم پر ڈال دیں'۔
چوہدری نثار کے مطابق، وزیراعلیٰ سندھ کی کپتانی میں معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ مہاجر ری پبلکن آرمی کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے سے اس لئے نہیں روکی کہ اس کا نام ان رپورٹوں میں نہیں تھا بلکہ اس لئے واپس لی کہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے قابل نہیں تھی۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ انٹیلی جنس رپورٹ میں مہاجر ری پبلکن آرمی کی خبریں ایم کیو ایم کی بجائے کہیں اور کنکشن بتا رہی ہیں۔
' یہ رپوٹ آج کے دور کی نہیں بلکہ سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت کے دور کی ہے'۔
'اس تنظیم نے ایس ایم ایس اور دیگر معلومات کے مطابق کئی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ یہ کون اور کہاں سے آپریٹ کر رہا ہے تاہم اس کے تانے بانے ایم کیو ایم سے نہیں ملتے'۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں اب تک پولیس ایک ہزار سے زائد ٹارگٹ آپریشن کر چکی ہے جبکہ رینجرز اور دیگر اداروں نے بھی بڑے جرائم کے خلاف بہت سے آپریشن کئے۔
'ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی تک دس فیصد کام کیا ہے ابھی بہت سا کرنا ہے'۔
چوہدری نثار نے فلور پر اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ کراچی میں جرائم میں ملوث ملزمان کی مری اور لاہور سے گرفتاریاں ہوئیں اور مجرموں نے کراچی سے بھاگنا شروع کر دیا ہے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات ہوں، کراچی یا پھر ملک کی مجموعی صورتحال ہم سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑہ رہے ہیں ۔
' کراچی میں آپریشن کے بعد سوائے ایک دن کے، اب تک گزشتہ پندرہ دنوں میں ہلاکتوں کی شرح میں واضح کمی ہوئی، ہماری کوشش ہے کہ یہ بہتری قائم رہے'۔
انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہونے والا ہے اور توقع ہے کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے کو بھی خوش اسلوبی سے مکمل کر لیا جائے گا۔
چوہدری نثار نے عندیہ دیا کہ کراچی آپریشن کا دوسرا اور تیسرا مرحلہ بہت شدید ہو گا۔
طالبان مذاکرات:
انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر حکومت کو مینڈیٹ دیا گیا ہے۔
'سب کو اعتماد میں لے کر پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور وقار کے مطابق فیصلہ کریں گے'۔
انہوں نے کہا کہ حکومتوں کے مضبوط اور کمزور ہونے سے پاکستان پر اثر نہیں پڑتا اس ایوان کے مضبوط اور کمزور ہونے سے ملک اثر انداز ہوتا ہے۔
افغان سرحد پر فائرنگ:
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر شیریں مہرالنساء مزاری کے نکتہ اعتراض پر وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ وزارت داخلہ کی بجائے وزارت دفاع سے متعلق ہے۔
انہوں نے فائرنگ کے واقعہ کو ایل او سی واقعات سے بڑھ کر قرار دیا۔
انہوں نے کہا: خود مختار قومیں اپنی سرزمین کا دفاع کرنا جانتی ہیں، تاہم وزارت دفاع سے ہی اس حوالے سے تفصیلات حاصل کر کے سرکاری موقف سے ایوان کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔