’مجوزہ‘ ترامیم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کو اس مرحلے پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ترامیم ابھی پارلیمان سے منظور نہیں ہوئی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو وکلا حکومت کی طرف سے آئین میں ترمیم کرنے کی ’خفیہ طور پر‘ کوششوں پر تشویش کا اظہار کرتے رہے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سابق صدر عابد شاہد زبیری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو واپس کر دیا، اس میں حکومت کو ’آئینی پیکج‘ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ایک صفحے کے خط میں اسسٹنٹ رجسٹرار نے درخواست واپس کرنے کے لیے رجسٹرار آفس کی ہدایت کا حوالہ دیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت، قانون بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے اور کسی قانون کی منظوری سے پہلے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
رجسٹرار نے ان عہدیداروں پر بھی اعتراض کیا جنہیں درخواست میں مدعا کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانون بنانے کا اختیار رکھنے والے اراکین کو درخواست میں فریق نہیں بنایا گیا ہے۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں، صدر اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹریز، جو بطور جواب دہندگان درج ہیں، پارلیمنٹ کے ممبر نہیں ہیں۔
وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ انہیں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
مذکورہ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ صدر، گورنر، وزیر اعظم، وفاقی وزیر، وزیر مملکت، وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر اپنے اختیارات کے استعمال اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے متعلقہ دفاتر یا ان کے اختیارات کے استعمال کے لیے کسی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے۔
رجسٹرار نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزاروں نے خود کو پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وکیل اور ممبر کے طور پر بتایا ہے، جبکہ لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسلز ایکٹ یہ شرط رکھتا ہے کہ وکلا کو کسی بھی معاملے میں فریق نہیں بننا چاہیے۔
اگر درخواست گزاروں کو کوئی شکایت ہے تو وہ پہلے اپنے متعلقہ وکلا کے اداروں سے رجوع کریں تاکہ وہ اس مقدمے میں ان کی نمائندگی کریں۔
پی بی سی نے تشویش کا اظہار کردیا
جمعرات کو پاکستان بار کونسل ( پی بی سی) نے حکومت کی جانب سے آئین میں ترمیم کی کوششوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک اجلاس کی صدارت اس کے وائس چیئرمین فاروق حامد نائیک نے کی، اجلاس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ قانون سازی سے متعلق رازداری کو پارلیمانی جماعتوں کے اصولوں، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار کی صریح خلاف ورزی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کی ساکھ کو بھی داغدار کرتی ہیں جو عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔
اجلاس میں مجوزہ ترامیم پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور مسودے میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں، اجلاس کو 25 ستمبر تک ملتوی کردیا گیا۔
پی بی سی نے صوبائی بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کے ساتھ مل کر متفقہ طور پر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے انہوں نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششوں کا نام دیا اور ایسے کسی بھی اقدام کی مزاحمت کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔