پاکستان

سنی اتحاد کونسل اراکین کی پارٹی تبدیلی کیا فلور کراسنگ نہیں، عطا تارڑ

سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی پارٹی کیسے تبدیل کرائی جا سکتی ہے جبکہ وہ حلف نامہ دے چکے ہیں، کیا اس طرح فلور کراسنگ کو قانونی حیثیت نہیں دے دی گئی، وفاقی وزیر

وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے قومی اسمبلی میں سنی اتحادی کونسل کے اراکین کو تحریک انصاف میں شمولیت کی اجازت دینے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی پارٹی کیسے تبدیل کرائی جا سکتی ہے جبکہ وہ حلف نامہ دے چکے ہیں، کیا اس طرح فلور کراسنگ کو قانونی حیثیت نہیں دے دی گئی۔

عطا تارڑ نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے حوالے سے قرارداد لائی گئی اور اسپیکر نے رولنگ دے کر ناصرف ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے بھی ایک کمیٹی بنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر کا کردار ہمیشہ پارلیمان کی بالادستی اور خود مختاری کے لیے، اراکین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت اچھا رہا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اسپیکر کے فیصلوں کی تائید کرتی رہی ہیں اور ان کے پیچھے کھڑی بھی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج جو آئین کی بالادستی کے لیے اسپیکر نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں سنگ میل ہے، آئین کے اندر پارلیمان کی بالادستی اور خودمختاری کا مکمل طور پر اظہار کیا گیا ہے اور آئین نے قانون سازی، آئینی ترمیم اور آئین بنانے کا اختیار پارلیمان کو دیا ہے اور یہ اختیار اور کسی ادارے کے پاس نہیں ہے۔

عطا تارڑ نے کہا کہ بہت ہی افسوس ہوتا ہے جب اس اختیار کو دیوار کی دوسری طرف سے استعمال کیا جاتا ہے اور جب 63۔اے کی تشریح کی باری آئی تو کہا گیا کہ ووٹ کاسٹ تو کیا جائے گا لیکن گنا نہیں جائے گا، اس کے ذریعے ناصرف حمزہ شہباز شریف کی پنجاب حکومت کو ختم کیا گیا بلکہ ملک میں ضمنی انتخابات بھی کرائے گئے، لوگوں کو ڈی سیٹ ہونا پڑا، یعنی 63۔اے کو دوبارہ سے لکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسے اختیار آتا ہے کہ آئین کے اندر ایک ترمیم کریں اور آئین کو دوبارہ لکھیں، 63۔اے کی جو آئین کی منشا ہے اس کو اپنی مرضی کا مطلب دیں اور جو مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا ہے، اس پر اسپیکر نے بالکل درست کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں پہلے سے یہ رول موجود تھا کہ آزاد امیدواروں نے 48گھنٹوں کے اندر کوئی نہ کوئی پارٹی جوائن کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ جن آزاد امیدواروں نے 48 گھنٹے کے اندر سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا، حلف نامہ دیا لیکن اب آپ کے فیصلے سے وقت کے دھارے کو واپس موڑ کر ان سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی پارٹی کیسے تبدیل کرائی جا سکتی ہے جبکہ وہ حلف نامہ دے چکے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ ناصرف وہ رول کے مطابق ایک پارٹی جوائن کر چکے ہیں بلکہ ایوان میں بیٹھے آزاد امیدواروں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک پارٹی کو جوائن کریں، غلطی تو تحریک انصاف سے ہوئی، تحریک انصاف کے مبینہ ممبران کو چاہیے تھا کہ وہ ایسی پارٹی جوائن کرتے جو ایوان میں موجود تھی، انہوں نے سنی اتحاد کونسل جوائن کی جس کا ایوان میں وجود ہی نہیں تھا، پھر بھی ایک فیصلے کے ذریعے ان کو یہ حق دے دیا گیا کہ آپ تحریک انصاف جوائن کر لیں اور پچھلی پارٹی چھوڑ دیں، آپ کا حلف نامہ منسوخ ہو جائے گا، ناصرف یہ بلکہ آزاد امیدواروں کو بھی کہا گیا کہ آپ تحریک انصاف جوائن کر لیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 63۔اے میں جب انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے لوگوں کو ووٹ ڈالا تو ناصرف ان کا ووٹ گنا نہیں گیا بلکہ انہیں ڈی سیٹ کردیا گیا اور اسپیکر نے ٹھیک کہا کہ اگر 48 گھنٹے کے اندر آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت کو جوائن نہیں کرتے تو وہ آزاد تصور کیے جائیں گے، تو جن اراکین نے سنی اتحاد کونسل جوائن کی ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں تحریک انصاف میں جانے کی اجازت دے دی جائے، کیا یہ فلور کراسنگ نہیں ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایک سیاسی جماعت کے اراکین کو وقت پیچھے کر کے یہ حق نہیں دیا جا رہا کہ آپ جو مرضی سیاسی جماعت جوائن کر لیں، کیا اس کے بعد دروازے کھول نہیں دیے گئے کہ جو بھی رکن ایوان میں کسی بھی جماعت میں ہو وہ کہے کہ میرا پرانا حلف نامہ منسوخ کریں، میں فلاں پارٹی جوائن کرنا چاہتا ہوں، کیا فلور کراسنگ کو قانونی حیثیت نہیں دے دی گئی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ 63۔اے کی تشریح بھی اپنی منشا کے مطابق کی جاتی ہے، پارلیمان کا خیال نہیں رکھا جاتا، پارلیمان کی بالادستی کا خیال نہیں رکھا جاتا اور جب مخصوص نشستوں کا فیصلہ آتا ہے تو وقت کو پیچھے کر کے آزاد امیدواروں کو بھی کہا جاتا ہے کہ آپ تحریک انصاف کے رکن ہیں جبکہ جنہوں نت سنی اتحاد کونسل جوائن کی ان کو بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کے تمام حلف نامے منسوخ کر دیے گئے، آپ تحریک انصاف جوائن کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے جو آج قدم اٹھایا ہے اس پر ہم اسپیکر ایاز صادق کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے پارلیمانی بالادستی اور خودمختاری کی بات کی ہے اور آئین کی بالادستی کی بات کی کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آئین کو دوبارہ لکھے، اپنی مرضی کی تشریح کرے اور پارلیمانی بالادستی اور خودمختاری کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔