پاکستان

کوئی بھی قانون سازی اور ترمیم آئینی ڈھانچے سے متصادم نہیں ہو سکتی، وکلا برادری

وکلا کی مشاورت کے بغیر آئینی پیکج بے سود ہوگا، وکلا برادری کا کسی بھی آئینی ترمیم پر قانون دانوں سے مشاورت کا مطالبہ

پاکستان کی وکلا برادری نے کہا ہے کہ پارلیمان کے پاس آئینی ترامیم کا اختیار ہے لیکن کوئی بھی قانون سازی اور ترمیم آئینی ڈھانچے سے متصادم نہیں ہو سکتی جب کہ وکلا کی مشاورت کے بغیر آئینی ترمیم کا پیکیج بے سود ہوگا ۔

آل پاکستان وکلا نمائندہ اجلاس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ میں وکلا برادری نے حکومت سے کسی بھی آئینی ترمیم پر قانون دانوں سے مشاورت کا مطالبہ کیا ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ قانون سازی اور آئینی ترمیم پارلیمنٹ کا اختیار ہے تاہم آئین کے بنیادی خدوخال سے متصادم ترمیم نہیں ہونی چاہئے۔

اعلامیہ میں حکومت کوباور کرایا گیا ہے کہ وکلا کی نمائندہ تنظیموں کی مشاورت کے بغیر اور ان کواعتماد میں لیے بغیر کسی بھی قسم کا آئینی ترامیم کاپیکج بے سود ہوگا۔

اجلاس نے وفاقی حکومت سے حتمی آئینی پیکیج کے مسودے میں وکلا کمیٹی کی آراکو شامل کرنے اور مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کو مشتہر کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

وکلا کے نمائندہ اجلاس نے حکومت اور آئین ساز کمیٹی کو تجاوزات پیش کرنے کیلئے 7 رکنی آئینی ترامیم کمیٹی بھی تشکیل دی، کمیٹی کو 7 دنوں میں تحریری تجاویز پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

اجلاس نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63 اے میں عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کی اپیل بھی کی گئی۔

اجلاس نے قرار دیا کہ وکلا کی نمائندہ تنظیموں کے علاوہ کسی کو ہڑتالوں کی کال دینے کی اجازت نہیں ہے، وکلا کے نمائندہ اجلاس نے تمام شرپسند عناصر کو خبردارکیا کہ وہ اپنے مذموم افعال سے جمہوریت اور آئین کی بقا کو خطرے میں ڈالنے سے باز رہیں ۔