نقطہ نظر

متنازع آئینی ترامیم: ’حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کو قابو کرنے کا منصوبہ ابھی ترک نہیں کیا‘

اگر ترامیم منظور ہوگئیں تو دو اعلیٰ عدالتیں ملکی نظام میں بھونچال اور اختلافات پیدا کرسکتی ہیں جس سے عدلیہ کی آزادی بھی مکمل طور پر ختم ہوسکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا وہ کسی مضحکہ خیز المیے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کی سیاست شاذ و نادر ہی اتنی زیادہ پستی میں گری ہے۔

دونوں ایوانوں کے تقریباً 400 اراکین عملی طور پر دنوں تک اسیر رہے جبکہ حکمران اتحاد کی اعلیٰ قیادت نے متنازع آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے درکار تعداد کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔

تمام صورت حال دیکھتے ہوئے گمان ہوا کہ حکومت اور اس کے اتحادی جلدی میں تھے کہ کسی طرح بل کی منظوری کے لیے ووٹنگ کو ویک اینڈ میں ہی نمٹا دیا جائے۔

حکومت پُراعتماد بھی تھی کہ وہ کامیاب بھی ہوجائے گی لیکن ہوشیار مولانا فضل الرحمٰن اس کھیل کا حصہ بننے کو تیار نہ ہوئے اور انہوں نے اپنے 8 اہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین کو قومی اسمبلی میں حکومت کے حق میں ووٹ دینے سے روکے رکھا۔

تعداد کے اس کھیل میں ناکامی نے شاید حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا لیکن ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بل کی منظوری میں ناکامی حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے دھچکا تھا کیونکہ اس اقدام کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ عدلیہ کا کنٹرول حاصل کرنا، فوج کے حمایت یافتہ اس نظام کو درپیش کسی بھی چیلنج کو دور کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔

بہ ظاہر اس بل میں جو ترامیم تجویز کی گئیں ان سے نہ صرف عدلیہ مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت ہوجائے گی بلکہ آئین کی اس بنیاد کو ہی ختم کردیا جائے گا جو ریاست کے تینوں ستونوں کے علحیدہ علحیدہ اختیارات کا تعین کرتی ہے۔

ان نام نہاد ’عدالتی اصلاحات‘ پر اس پر اس وقت سے کام ہورہا ہے کہ جب سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے۔ اس کے باوجود اب تک اس قانون کا کوئی بھی واضح فریم ورک منظرعام پر نہیں آ سکا ہے۔

خیال یہی ہے کہ یہ بل عدالتِ عظمیٰ اور ہائی کورٹس کی سیاسی معاملات میں زور آوری کی وجہ سے ترتیب دیا گیا جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم کورٹ کو خط بھی شامل ہے۔ مذکورہ خط میں خفیہ ایجنسیز کی عدالتی معاملات میں مداخلت کا ذکر کیا گیا اور ججز نے ہراساں کیے جانے کی شکایت کی۔

ماضی میں بھی انفرادی طور پر ججز نے انٹیلی جنس اداروں پر ایسے الزامات لگائے ہیں لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ جب ججز کی جانب سے اجتماعی طور پر مداخلت کے الزامات عائد کیے گئے۔

جس معاملے نے حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی گھبراہٹ میں مبتلا کیا وہ 12 جولائی کو عدالت عظمیٰ کا اکثریتی حکم تھا کہ جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں دینے کا فیصلہ دیا گیا۔ اس فیصلے نے قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشنز کو تبدیل کردیا جس کی وجہ سے حکمران اتحاد نے آئینی ترامیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کھو دی۔

ایک اور اہم عنصر موجودہ چیف جسٹس کی اگلی ماہ ریٹائرمنٹ ہے۔ ان کے جانے کے بعد حکومت کو ڈر ہے کہ عدالتی بینج سے ایک ایسا جج چلا جائے گا جس کا بہ ظاہر ان کی جانب جھکاؤ ہے۔ یوں یہ ترامیم ان کے خیال میں عدالتِ عظمیٰ میں توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس بل کو منظور کرنے کے حوالے سے پیش رفت ہوئی کہ جس میں اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو 68 سال کرنے کی تجویز پیش کی گئی یعنی چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں 3 سال تک توسیع ہوگی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کا مکمل مسودہ کابینہ یا اتحادی جماعتوں کے اراکین کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیا گیا۔ اراکین پارلیمنٹ جنہیں اسلام آباد میں رکنے کے لیے کہا گیا تھا، انہیں آخری لمحات تک کوئی اندازہ نہیں تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔

حکومتی بینچز کے کئی اراکین نے مجھے بتایا کہ انہیں ’نامعلوم‘ نمبروں سے فون کالز موصول ہوئیں جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ ایوان کے سیشن میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں۔ اس خیال کو مزید اس وقت تقویت ملی کہ جب اتوار کو وفاقی وزیر قانون نے اعتراف کیا کہ انہیں خود یہ مسودہ چند روز پہلے موصول ہوا ہے۔

اس پوری کوشش کا نتیجہ اتنا واضح ہے کہ تخیل کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کے باوجود متنازع ساکھ رکھنے والا حکمران اتحاد اپنی مرضی سے اس تمام کھیل کا حصہ بنا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے واقعات نے مخلوط حکومت کا حصہ سیاسی جماعتوں کے جمہوری اسناد کے حوالے سے بڑے بڑے دعووں کا پردہ چاک کیا ہے۔

ان مجوزہ آئینی ترامیم کا سب سے تشویش ناک پہلو وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے جوکہ سینئر ترین ججز کی خود بخود چیف جسٹس تقرری کے بجائے ججز کے پینل میں سے چیف جسٹس تعینات کرے گی جبکہ یہ آئینی عدالت ہائی کورٹس کے ججوں کے تبادلوں کا بھی فیصلہ کرے گی۔ یہ تو واضح ہے کہ یہ تمام ترامیم کے پیچھے سیاسی مقاصد موجود ہیں اور ان کا عدلیہ کی اصلاحات کے دعووں سے کوئی تعلق نہیں۔

مسودے کے مطابق تمام سیاسی مقدمات کو تجویز کردہ 7 رکنی آئینی عدالت میں منتقل کیا جائے گا جبکہ وزیراعظم اس عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر کریں گے۔ اس اقدام سے سپریم کورٹ اپنے تمام اختیارات سے محروم ہوجائے گی۔

دو اعلیٰ عدالتیں ملکی نظام میں بھونچال اور اختلافات پیدا کرسکتی ہیں جس سے عدلیہ کی آزادی بھی مکمل طور پر ختم ہوسکتی ہے۔ اور گمان یہی ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ اس حکومت کا اصل مقصد بھی یہی رہا ہے۔

ستم ظریفی ہے کہ حکمران اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے آئینی عدالت کے قیام کو چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ قرار دیا جس کی توثیق تقریباً دو دہائی قبل تمام مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں نے کی تھی۔ یہ آئینی جمہوریت کی بنیاد کو ختم کرنے والے ایک غیرجمہوری اقدام کو درست قرار دینے کی انتہائی ناقابلِ یقین دلیل ہے۔

چارٹر میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے لیکن یہ بالکل ایک مختلف تناظر میں ہے۔ درحقیقت اس دستاویز میں تو عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان طاقت کا توازن قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کو محدود کیا جائے اور وہ بھی اس مقصد کے تحت کہ غیرجمہوری قوتیں مضبوط ہوسکیں۔

اسی طرح ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں کی شق کا مقصد یہی ہے کہ آواز اٹھانے والے ججز کو سزا دی جاسکے۔ یہ عدلیہ کو قابو میں کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔

متنازع ترامیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے اقدام نے حکومت کو بار اور بینچ کے ساتھ محاذ آرائی کی صورت حال میں ڈال دیا ہے۔ ترامیم کو منظور کروانے کی ناکام کوشش کے باوجود حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنا منصوبہ ترک نہیں کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے سے قبل ترامیم منظور کروانے کی ایک اور کوشش کی جائے گی۔

یہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے امتحان ہوگا کہ وہ اپنے پیچھے کیا میراث چھوڑ کر جاتے ہیں۔ صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اگلے ماہ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔