کاروبار

حکومت کا اہم وزارتوں میں ماہرین کی تعیناتی پر غور

حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نجی شعبے سے وفاقی سیکریٹری کو شامل کرکے پہلا قدم اٹھایا ہے، دیگر وزارتوں میں بھی اس طرح کے فیصلے کیے جائیں گے۔

حکومت نے امریکی نظامِ حکومت میں انڈر سیکریٹری کی طرز پر معاشی اور تکنیکی وزارتوں کے اعلیٰ عہدوں پر مقامی مارکیٹ اور بیرون ملک سے ماہرین کو شامل کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے ایک موثر اور جدید حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ حکومت کے ساتھ ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر کام کرنے والے عالمی قرض دہندگان نے بہترین بین الاقوامی گورننس ڈھانچے کو اپنانے کی سفارش کی ہے جس میں بیوروکریٹس اپنے اختیارات سے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے تحقیق اور ڈیٹا پر مبنی فیصلے کرتے ہوئے نجی شعبے کی مدد کریں۔

حکومت نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام میں نجی شعبے سے وفاقی سیکرٹری کو شامل کرکے پہلا قدم اٹھایا ہے جس کے بعد وزارت توانائی، خزانہ، تجارت، آبی وسائل، موسمیاتی تبدیلی اور ہوابازی کی وزارتوں میں اس طرح کے فیصلے کیے جائیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) میں بھی یہ محسوس کیا گیا تھا کہ موجودہ سول وعسکری قیادت کی نئی تشکیل کردہ باڈی اور بیوروکریسی ملک کو آگے لے جانے کے قابل نہیں ہے۔

حکومت کے سامنے مختلف حلقوں سے کئی تجاویز آتی ہیں لیکن مارکیٹ کے بہترین طریقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوالٹی ان پٹ دیے بغیر وہ اس عمل میں پھنس جاتے ہیں یا اسے چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ یہ لازم نہیں کہ سیکریٹری اس شعبے میں مہارت رکھتا ہو۔

معاشی معاملات سے وابستہ وفاقی وزارتیں طویل عرصے سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کے کنٹرول میں ہیں جو پہلے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) تھا،درجنوں پی اے ایس، ڈی ایم جی افسران نے کئی دہائیوں سے وزارت خزانہ میں تعینات رہے ہیں جنہوں نے معمول سے مختلف فیصلے نہیں لیے۔

کابینہ کے ایک رکن نے کہا ’اجازت اور منظوری کے لیے طاقت کے استعمال اور سالانہ ہدف پر مبنی کارکردگی کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا، عالمی بینک قرضوں، گرانٹس اور تکنیکی مدد کے ذریعے پاکستان کے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی حمایت کرنے والا اہم قرض دہندہ ہے‘۔

وفاقی وزارتوں میں مجوزہ تعیناتی امریکا میں انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ کی طرز پر ہوں گی، جہاں حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے متعلقہ شعبوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افراد کو اعلیٰ بیوروکریٹک عہدے دیے جاتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سربراہ کے لیے کسی ٹیکس ماہر کو تعینات کرنے کے بجائے ایک پی اے ایس افسر کی تقرری کو بھی عالمی قرض دہندگان کی جانب سے اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا، ٹیکس اتھارٹی کو اگست میں پہلے ہی تقریباً 100 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا۔

ذرائع نے کہا کہ قرض دہندگان کے مطابق، ریونیو کی وصولی کو ڈیٹا اور تحقیق سے چلنا چاہیے، حکومت کی جانب سے چند کنسلٹنگ فرموں کی خدمات حاصل کرنے کو سراہا، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اسے ادارہ جاتی شکل دی جائے۔

اس کا اطلاق دیگر شعبوں پر بھی ہونا چاہیے تھا اور فیصلہ سازی ٹارگٹ اسٹڈیز پر مبنی ہونی چاہیے جیسا کہ دوسرے ممالک اپنی معیشتوں کو جدید بنانے میں کر رہے ہیں، جہاں تمام معاشی، تجارتی اور مالیاتی فیصلے مشاورتی فرموں کو آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں۔