پاکستان

ٹرائل کورٹ کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روک دیا گیا

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان، اہلیہ بشریٰ بی بی کی کیس سے بری کرنے، ٹرائل روکنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نےپاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی، سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی کیس سے بری کرنے اور ٹرائل روکنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواست میں مؤقف اپنا گیا کہ جب تک کیس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، اس وقت تک ٹرائل کورٹ کو ٹرائل آگے بڑھانے سے روکا جائے۔

اس سے قبل احتساب عدالت اسلام آباد نے وکلا صفائی کی استدعا منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت بغیر کارروائی کے کل تک ملتوی کردی۔

پی ٹی آئی کے بانی، سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کررکھا ہے جس میں کیس سے بری کرنے اور ٹرائل روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد کی احتساب عدالت نے وکلا صفائی کی استدعا منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت بغیر کسی کارروائی کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔

عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔