نقطہ نظر

سندھ میں کھجور کی پیداوار کو بڑا نقصان، بہتری کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

وہ شعبہ جات جن پر توجہ دے کر سندھ اپنی کھجور کی صنعت کو ترقی دے سکتا ہے اور بین الاقوامی معیار کی متنوع، اعلیٰ قیمت والی مصنوعات تیار کر سکتا ہے۔

پاکستان سب سے زیادہ کھجور کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ ملک میں کھجور کی سالانہ پیداوار کا تخمینہ 5 لاکھ 50 ہزار اور 6 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن کے درمیان ہے۔ پاکستان کی مجموعی کھجوروں کا تقریباً 50 فیصد حصہ سندھ پیدا کرتا ہے جس میں خیرپور میر کی کھجوریں 90 فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔

سندھ میں کھجور کی پیداوار خطے کی زرعی معیشت میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے جو مقامی کھپت اور برآمدی آمدنی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ سندھ، بالخصوص ضلع خیرپور، ملک میں کھجور کے سب سے بڑے پیدا کنندگان میں سے ایک ہے جو پاکستان کی مجموعی کھجور کی پیداوار میں اپنا بڑا حصہ ڈالتا ہے۔

ان فوائد کے باوجود سندھ کی کھجور کی صنعت کو اس کی اپنی پوری صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں کیا جارہا۔ بنیادی طور پر فصل کی کٹائی کے بعد کے انتظامات یعنی پروسیسنگ کی سہولیات اور مارکیٹ تک رسائی محدود ہونے جیسی وجوہات کی بنا پر ویلیو ایڈڈ سیکٹر (مصنوعات کی فروخت سے اضافی فائدہ) کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔

کٹائی کے بعد کے انتظامات میں خراب پھلوں کو ہٹانے کے لیے فوری طور پر چھانٹنا، صفائی کرنا اور معیار کے اعتبار سے درجہ بندی کرنا شامل ہے۔ یہ مرحلہ معیار کو برقرار رکھنے اور فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے اہم ہے۔ کھجور کی کٹائی اکثر اس خطے میں جولائی سے ستمبر تک مون سون کی بارشوں کے دوران ہوتی ہے۔ مون سون کی بارشیں 90 فیصد کھجور کو تیزی سے تباہ کردیتی ہیں جس سے انہیں بارش سے بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔

خیرپور میں کھجوروں کو دھوپ میں خشک کرنا عام ہے جہاں کھجوروں کو قدرتی طور پر خشک کرنے کے لیے کھلی دھوپ والے مقامات پر چٹائیوں پر بچھایا جاتا ہے۔ اس لیے پرندے، کیڑے مکوڑے اور دیگر جانور کھجور کو آلودہ کرسکتے ہیں۔ کٹائی کے بعد آپریشن کے مختلف مراحل میں 20 سے 30 فیصد کھجور ضائع ہوتی ہے جس سے کاشت کاروں کے منافع میں کمی واقع ہوتی ہے اور انہیں اعلیٰ قیمتوں کی متنوع مصنوعات بنانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

ان کھجوروں کی بڑی مقدار مقامی بازاروں میں فروخت ہوتی ہے جہاں قیمتیں دستیابی اور طلب کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ منڈی سے منظم روابط کم ہونے کی وجہ سے کھیپ متاثر ہوتی ہے جس میں کسانوں کو تھرڈ پارٹی کے تسلط کی وجہ سے اکثر کم قیمتیں ملتی ہیں۔

خیرپور سندھ میں پروسیسنگ کی سہولیات محدود ہیں اور جو ہیں وہ بھی زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر ہیں جن میں جدید ٹیکنالوجی بھی نہیں۔ نتیجتاً زیادہ تر کھجوریں کچی فروخت ہوتی ہیں یا بہت کم پروسیسنگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے۔

بنیادی مسائل میں سے ایک، جدید پروسیسنگ سہولیات کا فقدان ہے جو اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات جیسے کھجور کا شربت، پیسٹ اور پاؤڈر تیار کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ ناکافی انفرااسٹرکچر کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ ذخیرہ کرنے کی ناقص سہولیات اور نقل و حمل کے ناکارہ نیٹ ورک کی وجہ سے فصل کو کٹائی کے بعد اہم نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔

اس کے علاوہ کاشت اور پروسیسنگ میں معیاری طریقوں کی عدم موجودگی کے نتیجے میں مصنوعات کے معیار میں بھی فرق ہوتا ہے جو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کھجور کی فروخت کو متاثر کرتا ہے۔

تاہم ویلیو چین کو اپ گریڈ کرنے کے خاطر خواہ مواقع موجود ہیں۔ جدید پروسیسنگ ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرکے مصنوعات کے معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور کھجور کی مصنوعات کی پیداوار کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا جیسے کولڈ اسٹوریج کی سہولیات اور مؤثر لاجسٹکس، فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرسکتے ہیں اور کھجوروں کی مارکیٹ تک بروقت رسائی کو یقینی بنایا سکتا ہے۔

ان رکاوٹوں کو دور کرکے اور اپ گریڈنگ کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوالٹی سرٹیفیکیشن اور معیار کے عمل کو متعارف کروانے سے بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی کھجوروں کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور اس کی اپنی مارکیٹ بنائی جاسکتی ہے۔

کھجور کی صنعت کو بہتر بنانے کے لیے ایک اور اہم حکمت عملی زرعی طریقوں کو جدید بنانا ہے۔ سندھ میں کسان کھجور کی زیادہ پیداوار والی اقسام اور جدید انتظامی طریقوں کا استعمال کرکے اپنی پیداواری صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرسکتے ہیں۔ اس منتقلی کے لیے نہ صرف جدید کاشتکاری کے آلات اور مشینری بلکہ کسانوں کے لیے تربیتی پروگرامز کی بھی ضرورت ہے۔

مارکیٹ تک بروقت رسائی اور مارکیٹ کی ترقی، سندھ کی کھجور کی مصنوعات کی مسابقت کو بڑھانے کی حکمت عملی کے اہم اجزا ہیں۔ کھجور کی زیادہ مانگ کے باوجود خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں سندھ کی کھجور کی مارکیٹ تک رسائی محدود ہے۔

مضبوط مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں کو تیار کرنا جو سندھ کی کھجوروں کی منفرد خصوصیات کو اجاگر کرتی ہیں جیسے کہ ان کی پیداوار یا مخصوص ذائقہ، انہیں عالمی مارکیٹ میں الگ کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

برآمدات پر مبنی ترقی کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ اہم درآمد کنندگان کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں اور سندھ کی کھجور کی مصنوعات کی نمائش کے لیے بین الاقوامی تجارتی میلوں میں شرکت کرنا اچھا طریقہ ہے۔ کھجور کی صنعت کو بہتر بنانے کے مقصد سے کسی بھی حکمت عملی کی کامیابی کے لیے تعاون اور شراکتیں بہت ضروری ہیں۔

سرکاری ایجنسیز، نجی شعبے کی کمپنیز اور بین الاقوامی تنظیموں کو ضروری بنیادی ڈھانچہ، تربیت اور مالی مدد فراہم کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ سندھ کی کھجور کی صنعت میں چھوٹے پروڈیوسرز کی مدد کے لیے ٹارگٹڈ مالیاتی حل کو نافذ کرنا ضروری ہے۔

مائیکروفنانس پروگرام جو کم سود پر قرض کی ادائیگی کی لچکدار شرائط کے ساتھ زرعی قرضوں کی پیشکش کرتے ہیں، وہ فصل کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ یہ جدید پروسیسنگ آلات کی خریداری اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے انتہائی ضروری سرمایہ فراہم کر سکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے گارنٹی دیے جانے اور رعایتی قرضوں کی سہولیات سے بینکنگ کی فنانسنگ کو مزید قابل رسائی بنایا جا سکتا ہے۔ زرعی کوآپریٹیو کی تشکیل چھوٹے پروڈیوسرز کو وسائل جمع کرنے اور بڑے اجتماعی قرضوں تک رسائی، پروسیسنگ آلات جیسے مہنگے وسائل کا اشتراک اور انفرادی مالیاتی بوجھ کو کم کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔

ان شعبوں پر توجہ دے کر سندھ اپنی کھجور کی صنعت کو ترقی دے سکتا ہے اور متنوع، اعلیٰ قیمت والی مصنوعات تیار کر سکتا ہے جو بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہوں اور وہ مارکیٹ کے مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں، یہی بالآخر خطے میں پائیدار ترقی کا باعث بنتی ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اسلم میمن

لکھاری پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل سوشل سائنسز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٹنڈوجام کے ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔