دنیا

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پہلی بار مقامی انتخابات کا انعقاد

3 مراحل میں ہونے والے انتخابات کا آخری مرحلہ 2 اکتوبر کو مکمل ہوگا جب کہ انتخابی نتائج کا اعلان اس کے 6 روز بعد کیا جائے گا۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پہلی بار منعقد ہونے والے مقامی انتخابات کا آغاز ہوگیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 87 لاکھ مسلمان اکثریتی ووٹرز پر مشتمل اس علاقے میں بہت سے لوگ 2019 میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے کنٹرول مسلط کرنے کے حکم پر سراپا احتجاج ہیں۔

اس فیصلے کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو وفاقی طور پر مقرر کردہ گورنر کنٹرول کرتا ہے اور ایک دہائی میں پہلی بار ہونے والے ان انتخابات کو بہت سے لوگوں نے عملی پالیسیوں سے زیادہ اپنے جمہوری حقوق کے استعمال کے طور پر دیکھا ہے۔

تین مراحل میں ہونے والے انتخابات میں ووٹرز سخت حفاظتی اقدامات میں قطار میں کھڑے دکھائی دیے، پہاڑی علاقے میں حفاظتی انتظامات اور لاجسٹک چیلنجز کے پیش نظر انتخابات کو مرحلہ وار منعقد کیا جارہا ہے۔

سری نگر کے قریب واقع ضلع پلوامہ کے 31 سالہ نوید پارا نے کہا کہ 10 سال میں انہیں پہلی بار سنا جارہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی آواز کے ذریعے ان کی نمائندگی ہو۔

مقبوضہ وادی میں 5 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور یہاں 35 سال سے جاری سورش کے باعث ہزاروں افراد جان سے جاچکے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے لوگوں سے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کی درخواست کی ہے۔

ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں اضافہ ہونے کی توقع کی جا رہی ہے جب کہ ماضی میں بھارتی حکمرانی کی مخالفت کرنے والے علیحدگی پسندوں نے کشمیر کی آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے 47 سالہ احمد اللہ بھٹ نے کہا کہ ’مجھے صرف اس بات کی پرواہ ہے کہ ہماری نمائندگی صرف تعلیم یافتہ نمائندے کریں جو ہمارے مسائل کو حل کرسکیں، انہوں نے اس لیے ووٹ دیا ہے کہ ان کو اپنی نمائندگی کرنے والی حکومت ملے، وہ یہاں کی زمین کو وفاقی حکام کی جانب سے چھینے جانے پر فکر مند ہیں۔

الیکشن سے قبل بھرپور انتخابی مہم میں غیر معمولی طور پر کھلے مباحثے ہوتے رہے ہیں، لیکن اہم فیصلے نئی دہلی کے ہاتھ میں رہیں گے جس میں سیکیورٹی اور کشمیر کے گورنر کی تقرری بھی شامل ہے۔

نئی دہلی کو 90 ارکان پر مشتمل اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ قوانین کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

انتخابات کا آخری مرحلہ 2 اکتوبر کو مکمل ہوگا جب کہ انتخابی نتائج کا اعلان اس کے 6 روز بعد کیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق جموں میں رواں سال بدترین بے امنی ہوئی جہاں نریندری مودی نے ہفتے کو انتخابی مہم کے دوران بھارتی تسلط کے خلاف لڑنے والے کشمیریوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ دہشت گردی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتی جنتا پارٹی (بے جے پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ مقبوضہ وادی کے حکومتی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں نے کشمیر میں امن اور ترقی کی نئی راہ ہموار کی ہے۔

یاد رہے کہ 2019 میں ان تبدیلیوں کے نفاذ کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی تھی اور ایک ماہ تک انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام بند کردیا گیا تھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 2014 کے بعد ہونے والے یہ پہلے مقامی انتخابات ہیں لیکن بھارت میں راوں سال جون میں انتخابات ہوئے تھے جس میں نریندری مودی نے لگاتار تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔

2019 کے بعد کشمیریوں کی بڑی تعداد شہری آزادیوں پر عائد پابندیوں سے بددل ہے جبکہ بی جے پی نے صرف ہندو اکثریتی علاقوں میں موجود اقلیتی نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

ناقدین نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی مسلم اکثریتی علاقوں میں آزاد امیدواروں کی تعداد میں اضافہ کررہی ہے تا کہ ووٹ تقسیم کیا جا سکے۔