پاکستان

مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا وضاحتی حکم آن لائن ہونے پر سپریم کورٹ حیران

الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کروائے، عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں، 14 ستمبر کا حکمنامہ

سپریم کورٹ آفس نے اپنی ویب سائٹ پر 14 ستمبر کو مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق وضاحتی حکم نامہ جاری کرنے پر حیرت کا اظہار کیا ہے، جس میں اعلیٰ عدالت کے 12 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کی سرزنش کی گئی تھی، فیصلے میں اپوزیشن پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے 14 ستمبر کے وضاحتی حکم نامے میں خبردار کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے قانونی طور پر پابند ذمہ داری کو انجام دینے میں مسلسل ناکامی یا انکار کے نتائج ہو سکتے ہیں۔

وضاحتی حکم نامے پر سپریم کورٹ کے 8 ارکان نے دستخط کیے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت 13 ججوں پر مشتمل فل کورٹ کے اکثریتی بینچ کے فیصلے میں شامل ہیں۔

گزشتہ روز ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل (ڈی آر جے) کے دستخط سے جاری دفتری نوٹ میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ 14 ستمبر کا وضاحتی حکم نامہ کیسے اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے، جب کہ سپریم کورٹ کی طرف سے نہ تو کوئی کاز لسٹ جاری کی گئی تھی اور نہ ہی دفتر کی طرف سے نوٹس جاری کیے گئے تھے جب کہ وضاحتی آرڈر ڈی آر جے کے دفتر کو اپ لوڈ ہونے والے دن رات 8 بجے تک موصول نہیں ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وضاحتی حکم نامہ پیر کو بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب تھا۔

ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دفتری نوٹ عدلیہ کے اندر لڑائی کو واضح کرتی ہے جس کا مقصد الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن کے اجرا میں مزید تاخیر کا بہانہ فراہم کرنا ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ 41 ایم این ایز کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔

دفتری نوٹ میں میڈیا پر چلنے والی اس خبر کا بھی ذکر کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشست کے معاملے میں اپنے 12 جولائی کے فیصلے کی وضاحت جاری کی ہے۔

وضاحتی حکم نامے میں وضاحت کی گئی تھی کہ کل 80 ایم این ایز میں سے 41 واپس آنے والے امیدوار پی ٹی آئی کے ہی امیدوار تھے اور ہیں، جو آئینی اور قانونی مقاصد کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے ارکان ہیں۔

12 جولائی کے حکم نامے میں ای سی پی سے اس بات کی تصدیق کرنے کہا گیا کہ آیا ان 41 آزاد امیدواروں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور ان ارکان کو 15 دنوں کے اندر اس وضاحت کے ساتھ بیان جمع کروانے کا حکم دیا گیا کہ انہوں نے 8 فروری کے انتخابات ایک مخصوص سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر لڑے تھے۔

تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا، فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ واضح ہے اور اس کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ 12 جولائی کو اپنے مختصر حکم میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔

رواں سال 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 13 رکنی فل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا، فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔