پاکستان

آئینی پیکج پر اتفاق رائے میں حکومت ناکام، قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی

وفاقی کابینہ کے سامنے آئینی پیکیج پیش نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کو نہیں پارلیمنٹ کو طے کرنا ہے کہ یہ ملک کیسے چلے گا، وزیر قانون کا قومی اسمبلی میں خطاب

آئین میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا جہاں کئی دن کی کوششوں کے باوجود بھی آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری غیر معینہ مدت تک موخر کر دی گئی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس آج دوپہر ایک بجے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، اجلاس کے آغاز پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند دنوں سے آئینی ترامیم سے متعلق ایک ڈرافٹ گردش کرتا رہا میڈیا میں بھی آیا اور مختلف سیاسی رہنماؤں کے ملاقاتوں میں بھی زیر بحث آیا۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں، ترامیم آئین میں عدم توازن دور کرنے کے لیے ہے، رکن پارلیمنٹ کے حیثیت سے آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کی سربلندی کے لیے کام کریں جب کہ قانون سازی اور آئین کی حفاظت کرنا ہمارا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرافٹ حکومتی اتحادکی دانست میں آئین کو بہتر کرنےکی کوشش تھی، اس دستاویز میں آئینی عدالت سے متعلق تجویز ہے، یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوگا بلکہ بہت سے جمہوری ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اس پر تجاوز کرلے گی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اتفاق رائے سے یہ منظور ہو، کابینہ سے منظوری تک آئینی ترمیم کی کوئی حتمی شکل سامنے نہیں آنی تھی اور جب اس پر اتفاق ہو جائے گا تو اس ایوان میں بھی ضرور آئے گا۔

’اس طرح قانون سازی میں پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے موت بہتر ہے‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے خواجہ آصف کی تقریر کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے انتہائی افسوس ہے جس طرح آج اس پارلیمان کی بے توقیری کی گئی اور اس پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، جس طرح پارلیمنٹ کو مذاق بنایا گیا میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام ایم این ایز کی بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں، خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمت سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور محمود اچکزئی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں وزیر قانون کہہ رہے تھے کہ میرے پاس کوئی مسودہ نہیں ہے، اگر وزیر قانون کو پتا نہیں، حکومت کے نمائندوں کو پتا نہیں تو یہ ڈرافٹ کہاں سے آیا؟

اسد قیصر نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ افسوس پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو زرداری پر ہے، جن کو سارا علم تھا، اس میں 56 ترامیم پیش کی گئی تھیں، یہ بتائیں کہ آرٹیکل 8 اور 99 اس میں ترامیم کا کہا گیا تھا، یہ تو بنیادی شہری حقوق کو بھی سلب کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم کوئی اس ملک کے دشمن ہیں، ہم چاہتے ہیں جو جوڈیشل ریفامرز آئیں اور لوگوں کو سہولت ملے، ہم نے پہلے بھی اس پر بات کی ہے، اگر ترامیم لانی ہے تو بالکل لائیں مگر اس پر بحث کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ رات کی تاریکی میں چھٹی والے دن چوری کی طرح یہ ترامیم پاس کرنی ہوتی ہیں، کیا اس اسمبلی کے کوئی رولز ہیں یا نہیں، آپ نے اگر اس قسم کی قانون سازی کرنی ہے تو سب سے پہلے اس کو پبلک کریں، اس پر تمام بار ایسوسی ایشن کو اعتماد میں لیں، اسمبلی میں بحث کرائیں، اگر اس طرح کی جانے والی قانون سازی کو چوری کہا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں جتنا جھوٹ بولا گیا وہ تاریخ کا بدترین جھوٹ بولا تھا، اس پارلیمنٹ کے پاس اخلاقی جواز نہیں کیوں کہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہے لیکن پھر بھی کرنا ہے تو ہمارے 6 سے 7 لوگوں کو اغوا کیا گیا اور انہیں پنجاب ہاؤس میں رکھا گیا ہے، کیا قانون سازی اس طرح ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں سے سوچ رہا تھا اگر اس طرح ذلت اور زور وظلم سے قانون سازی ہوتی ہے تو ہمارے لیے اس طرح پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے موت بہتر ہے، اگر اس قسم کی قانون سازی لائی جاتی ہے تو ہم مزاحمت کریں گے اور کوئی سمجھتا ہے کہ ہم دھونس اور دھمکیوں سے ڈر جائیں گے تو وہ سوچ لے ہم لڑیں گے۔

اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے جو اسمبلی بنائی ہے ہم اس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، ہم 5 بنیادی چیزیں چاہتے ہیں، آئین کی بالادستی، آزاد عدلیہ، پارلیمنٹ کی مضبوطی، قانون کی حکمرانی، ان سب پر بات کرنی ہے تو ہم سب سے پہلے کھڑے ہوں گے لیکن رات کی تاریکی میں کوئی قانون سازی کرنی ہے تو وہ ہم نہیں مانیں گے۔

انہوں نے وزیر قانون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے لیے بہت عزت ہے لیکن آپ بتائیں جو کچھ آپ کررہے تھے کیا آپ کا ضمیر اس کی اجازت دے رہا تھا، کیا یہ آپ کے جدوجہد کی نفی نہیں ہے۔

ملک کیسے چلے گا، یہ چیف جسٹس نہیں پارلیمان طے کرے گا، وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسد قیصر کی تقریر کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ اسد قیصر میرے لیے بڑے محترم ہیں، اسپیکر کی کرسی پر بیٹھنا اس ایوان کا رکن ہونا سب سے بڑا اعزاز ہے، جب کہ آئینی ترمیم میں کوئی نئی بات نہیں، یہ میثاقِ جمہوریت کا حصہ ہے، آئینی عدالت کے قیام کی تجویز کو فوری چیف جسٹس سے جوڑ دیا گیا، آئینی عدالت کے قیام کی منفی تشریح کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ حکومتی بل ہے تو سب سے پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، اس کو ایک ڈرافٹ بل کی شکل میں کابینہ کے ساتھ لایا جاتا ہے، کابینہ اس کی منظوری دیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کیبینٹ اسے پارلیمنٹ میں لے جانے دیتی ہے، ابھی یہ بل مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا، یہ کابینہ کمیٹی برائے تشخیصِ معاملاتِ قانون سازی (سی سی ایل سی) میں زیر بحث نہیں آیا، کچھ عرصے سے مشاورت جاری تھی، موجودہ انتخابات کے بعد جب حکومتی اتحاد تشکیل پارہا تھا جس میں تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور قانون سازی اس کا حق ہے، پارلیمنٹ کو دیکھنا ہے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے، سیاستدان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اختیار کسی اور کی جھولی میں ڈالتے آئے ہیں جب کہ چیف جسٹس کو طے نہیں کرنا کہ ملک کیسے چلے گا بلکہ یہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد آئینی عدالت کا قیام تھا، 18 ویں آئینی ترمیم کرتے وقت رکاوٹیں ڈالیں گئی، وہ کون سی طاقت تھی جس نے کہا کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی اور وہ کون تھے جنہوں نے کہا کہ اگر آپ 19 ویں ترمیم کریں گے تو 18 ویں ترمیم ختم کردی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ قانون ساز پارلیمان کا اختیار ہے وہ آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے مناسب قانون سازی کرسکتی ہے ، 25 کروڑ عوام نے پارلیمان کو یہ اختیار دیا ہے کہ انہوں نے سمت طے کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے چینی کا ریٹ نہیں مقرر کرنا، چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے نہیں بتانا کہ کونسی سیاسی جماعت کو کس طرح چلنا ہے، منشور ہم نے اور ہمارے قائدین نے دینا ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں میں جو بلوچستان میں ہوا اور گزشتہ کچھ مہینوں میں جو خیبرپختونخوا میں حملوں میں شدت آئی ہے ہم اپنے ان بھائیوں کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ریاست کو قائم رکھنے کے لیے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بے تحاشا قربانیاں دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی ایپکس کمیٹی میں دو مطالبات رکھے گئے، انہوں نے کہا کہ ملک جل رہا ہے کہ یہ تجویز ہم دے سکتے ہیں کہ خصوصی عدالتیں قائم ہوں لیکن اس پر کہا گیا کہ اس کا فیصلہ اتفاق رائے کے بعد ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے اس حوالے سے کہا کہ ہمیں اپنے سول نظام کو بہتر کرنا چاہیے، فوج قربانیاں دے رہی ہے ان کی قربانیوں کو ہم رائیگاں نہیں جانے دیں گے لیکن اپنا حصہ ڈالیں گے، ابتدائی طور پر مالک بلوچ صاحب نے بھی کہا کہ یہ وقت درست نہیں، اس موقع پر یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس ترمیم کے ذریعے پہلے قائم کیے گئے حراستی مراکز کو بھی فعال کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ لاپتا افراد کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس موقع پر کہا تھا کہ اگر اس کا اچھا حل نکلتا ہے تو یہ ضرور کریں لیکن اس پر سوچ لیا جائے کہ اسے ابھی نہ کیا جائے اور اسی وقت اس تجویز کو ختم کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم حکومتی اتحاد ہیں مسودہ لانا حکومت کی ذمہ داری ہے اپوزیشن کا کام اس میں سے تنقید کرکے چیزیں نکلوانا یا شامل کرنا ہے، ہمارا کام اگر پورا ہوگا تو ہم اپوزیشن تک پہنچیں گے۔

وزیر قانون نے مزید کہا کہ کمیٹی بنی ہوئی تھی، کمیٹی میں اس پر بات شروع ہوئی اور میں نے اہم نکات سامنے رکھے کہ آئینی عدالت کے قیام کی تجویز ہے، اسے فوری طور پر چیف جسٹس کی مدت ملازمت کی توسیع سےجوڑ دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ عدالت اور عدلیہ پر حملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور حکومت میں تو کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا، کیا ہم بھول گئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیر صدیقی کے ساتھ کیا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی ڈاکہ یا چوری نہیں ہے، بڑی بات یہ ہے کہ آئینی عدالت کی شکل کیا ہوگی،مزید کہا کہ ازخود نوٹس کے اختیار کو ریگیولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، ہماری اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہماری ہر وقت خواہش ہوتی ہے کہ عدالت میں جائیں اور ہمارے مسئلے وہیں حل ہو، ہم نے خود کو کمزور دیا اور نادانیاں اتنی کی کہ ہمارا سارا سیاسی اختیار دیوار کے اس پار چلا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اختیار صرف تب واپس آئے گا جب آپ قانون سازی کرکے اسے واپس لیں گے، آپ وہ قانون بنائیں جس کا فائدہ لوگوں کو ہو، 90 ترامیم کے ساتھ ضابطہ فوجداری کا مسودہ لیکر آرہا ہو۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وکلا نے آئینی پیکیج مسترد کیا تو اس کی ذمہ داری میں لوں گا، انصاف فراہم کیا جانا چاہیے اور وقت پر فراہم کیا جانا چاہیے۔

ہم سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا، نوید قمر

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے وفاقی وزیر قانون کی تقریر کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسد قیصر کی بہت عزت کرتا ہوں، انہوں نے ایسا تاثر دیا کہ ایک پارٹی کی جیت ہوئی ہے اور ایک کی شکست لیکن اگر جیت ہوئی ہے تو پوری پارلیمنٹ کی ہوئی ہے اور اگر شکست بھی پارلیمان کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اچھی چیز بھی غلط طریقے سے کرنے جائیں تو اس کے نقصانات ہوتے ہیں، میں خود اٹھارویں ترمیم سمیت دیگر اہم معاملات کا حصہ رہا ہوں اور یہ بھی وہ کام ہے جو سب کی مشاورت سے ہی ہوسکے گا، اس کے بغیر نہیں ہوسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرافٹ ابھی اس اسٹیج پر ہے جس میں مختلف تجاویز سامنے آئی ہیں، بطور سیاسی جماعت پیپلزپارٹی نے بہت سے تجاویز کو مختصر کرکے 3 یا 4 پر کہا کہ ہم اس سے زیادہ نہیں کرسکتے، ہمارا کام ہے اس ادارے کو مضبوط کرنا کیوں کہ یہ کمزور ہوگا تو ہم سب ہوں گے۔

نوید قمر نے کہا کہ اگر تصور ٹھیک ہوگا تو ذاتی شخصیات کی بات نہ کریں کہ یہ جج آئے گا تو ہمارے فائدہ کا ہوگا یا یہ جج ہمیں نقصان دے گا، تمام ججز قابل احترام ہیں، اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے لیے بھی ہمارے دل اتنی ہی عزت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل ابھی چلےگا، بیٹھ کر تو دیکھیں کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں، بلاول بھٹو نے بھی مولانا فضل الرحمٰن سے بھی یہی بات کی تھی آپ دیکھ لیں کون سے بات سمجھ آتی ہے اور کون سی نہیں، مانتا ہوں سب کی اپنی سیاست ہوتی ہے اور بعض مواقع پر ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے لیکن ہم اس پر پوزیشن لیتے ہیں کیوں کہ وہ اس وقت ہمارے حق میں ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹناہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کس چیز میں فائدہ ہے اور کس چیز میں نہیں ہے، اس کو اگلے 5 سال سے 20 سال کے تناظر میں دیکھیں۔

پی پی رہنما نے مزید کہا کہ میڈیا میں جو ڈرافٹ گردش کررہا ہے، یہ وہ ڈرافٹ نہیں ہے اس میں بہت سے چیزوں ہر ہمیں بھی اعتراض ہے جب کہ ہم کوئی شب خون نہیں مارنا چاہتے تھے، ہمارا دل بھی وہی کرتا ہے جو آپ کا کرتا ہے۔

اتحادی ہیں تو یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ہلکے میں لیا جائے، فاروق ستار

ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی ہو یا آئین میں ترمیم، اس کا ایک طریقہ کار ہے، یہ اجلاس جو بلایا گیا، پہلے دن سے اس کے مقاصد مختلف ذرائع سے بالکل واضح تھے کہ کوئی آئینی ترمیم لائی جارہی ہے، میڈیا میں بھی یہ ساری باتیں آگئی تھیں اس میں کون سی اصلاحات لائی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ بھی طے ہوگیا کہ اتوار کو اس بل کو لایا جائے گا، جب ایک ایک کرکے سب کچھ باہر چلاگیا اور کم از کم ایک موقع ملا تھا، ایک اسپیشل کمیٹی بن گئی تھی، اس کمیٹی میں پہلے دن مجوزہ ڈرافٹ نہ بھی رکھتے تو کم سے کم ایک ورکنگ پیپر ضرور دے دیتے، چونکہ اپوزیشن پارٹی بھی اس میں شامل ہے تو ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم حلیف ہیں تو ہمارا بھی شکوہ ہے ہمیں بھی ہلکے میں لیا جاتا ہے، اور عین وقت میں جب ہم توجہ دلاتے ہیں تو پھر اسحٰق ڈار اور اعظم نذیر تارڑ آتے ہیں اور میرے ساتھیوں سے بات کرتے ہیں، اگر اس طریقے کار کو ٹھیک نہیں کریں گے تو میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ جو اصلاحات کے اہم پوائنٹس ہیں اس پر شاید پی ٹی آئی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔

فاروق ستار نے کہا کہ سب کو طریقہ کار پر اختلاف ہے اور اتفاق رائے پیدا ہورہا تھا، اس پر بھی اختلاف ہورہا تھا کہ اس مسودے میں غیرضروری بوجھ ڈالا گیا جو ایک مناسب اقدام نہیں تھا، ہمیں مین ایشو پر بات کرنی چاہیے تھی جو میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا، ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ آپ جو تحریک چلارہے ہیں وہ ججوں کی آزادی کی تحریک تو ہے لیکن عدلیہ کی آزادی کی تحریک نہیں ہے جس کے نتائج بعد میں سامنے آئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے ٹھوس تجویز پیش کی تو وہ ایم کیو ایم پاکستان نے دی ہے، یہ بلدیاتی سطح پر شہری یا مقامی حکومت کو بااختیار بنانے کا بل ہے، پی ٹی آئی کے ساتھیوں سے کہوں گا تو اس بل کا مسودہ تو آپ کے پاس ہے، آپ کم از کم اس سے آغاز کریں اور 140 اے کے اختیارات دیں ورنہ جتنی اصلاحات کریں گے چاہیے، معاشی ہو، معاشرتی ہو یا عدالتی ہوں، آخر میں جاکر مایوس ہوں گے۔

قومی اسمبلی اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی

بعد ازاں، سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا، قومی اسمبلی اجلاس سے قبل مشاورت میں اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے پرغور کیا گیا تھا۔

جو مسودہ لیک ہوا ہے اس پر کوئی بھی اتفاق رائے نہیں کرسکتا، چیئرمین پی ٹی آئی

مجوزہ آئینی ترامیم: حامد خان کا 19 ستمبر سے وکلا تحریک کے آغاز کا اعلان

فیصل واڈا نے حکومت کو ’نکما اور نا اہل‘ قرار دے دیا