پاکستان

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ترامیم سے متعلق تنازع، جسٹس منیب اختر کا واک آؤٹ

وزیر قانوبن نے 3 مئی کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ آئندہ اجلاس میں پیکج کے قانونی پہلوؤں کی تفصیلی وضاحت فراہم کریں گے، جسٹس منیب اختر

عدلیہ سے متعلق آئینی پیکج کے مجوزے کے معاملے پر تنازع نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے کے اجلاس کو شدید متاثر کیا، جہاں سپریم کورٹ کے جج جسٹس منیب اختر نے واک آؤٹ کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے آغاز پر ممبر جوڈیشل کمیشن جسٹس منیب اختر نے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی غیر موجودگی کی طرف اشارہ کیا، جو کچھ مصروفیات کی بنا پر اجلاس میں شرکت نہ کر سکے، جسٹس منیب اختر نے یاد دہانی کرائی کہ وزیر نے 3 مئی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ آئندہ اجلاس میں پیکج کے قانونی پہلوؤں کی تفصیلی وضاحت فراہم کریں گے۔

تین مئی کو وزیر قانون نے اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی جس میں حکومت کے آئینی پیکج متعارف کرائے جانے کے منصوبے کے حوالے سے بتایا گیا تھا، جو کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری، پوسٹنگ اور تبادلے سے متعلق ہے۔

سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور اعلیٰ عدالتوں میں تعطیلات کی وجہ سے چیف جسٹس کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا، جبکہ کئی اراکین تعطیلات پر اور کچھ ججز بیرون ملک تھے، نتیجتاً نئے عدالتی سال کے آغاز کے بعد عدالتی کمیشن کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جسٹس منیب اختر نے آئینی پیکج کے حوالے سے استفسار کیا اس پر اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعون نے بتایا کہ حکومت کے مذاکرات ابھی جاری ہیں، انہوں نے مزید نوٹ کیا کہ عدالتی کمیشن کا مینڈیٹ آئینی ترامیم کی درخواست کرنا نہیں ہے، کیونکہ اجلاس کا مقصد کمیشن کی قواعد سازی کمیٹی کی سفارشات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے اجلاس کے ایجنڈے سے متعلق زور دیا کہ کمیشن کے رکن ہونے کی حیثیت سے اجلاس میں شریک تمام افراد برابر ہیں، لہذا کوئی بھی شخص اجلاس کے ایجنڈے سے ہٹ کر امور نہیں اٹھا سکتا۔

29 رکنی جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی صدارت کرنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن آئینی پیکج کے نتائج کے بارے میں تحقیق کا مجاز نہیں ہے، اور یاد دلایا کہ یہ معاملہ گزشتہ اجلاس میں بھی زیر بحث آیا تھا۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے اجلاس چھوڑتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وہ اس وقت تک شرکت نہیں کر سکتے جب تک آئینی پیکج کے حوالے سے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا جائے۔

صبح 11 بجے شروع ہونے والا جوڈیشل کمیشن کا اجلاس تقریبا پانچ گھنٹے جاری رہا، جس میں وفاقی شرعی عدالت، پانچ اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نمائندہ اختر حسین، سابق سپریم کورٹ جج منظور احمد ملک، صوبائی وزرائے قانون، صوبائی بار کونسل کے نمائندے شامل تھے، اختر حسین نے کراچی سے اور منظور ملک نے لاہور سے ویڈیو کال کےذریعے اجلاس میں شرکت کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ سے کہا کہ وہ مجوزہ قواعد پیش کریں اور اس کے بعد اراکین کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی دعوت دی۔

پیش کی گئیں تجاویز سے اس معاملے پر ایک وسیع ہم آہنگی پیدا ہوئی، جبکہ مختلف زمرہ جات کے لیے پرو فارمز کی تعداد بڑھانے اور ترامیم کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئیں، مجوزہ قواعد میں تبدیلی کر کے ان امور کو حل کیے جانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

بحث کے اختتام پر اراکین نے تجویز دی کہ چیف جسٹس اور جسٹس منصور علی شاہ مجوزہ قواعد میں ترامیم کریں اور انہیں کمیشن کے اگلے اجلاس میں 28 ستمبر کو صبح 10بجے پیش کریں۔

کمیٹی کی تجاویز کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہر خالی آسامی کے لیے سپریم کورٹ میں تین ججوں کے نام تجویز کریں گے، عدالتی کمیشن کے سربراہ خالی ہونے والی آسامی پر غور کے لیے اجلاس 15 دن قبل بلائیں گے۔

اسی طرح ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے صدر جوڈیشل کمیشن کے صدر ماہ قبل خالی آسامی کے وقوع پذیر ہونے سے کم از کم ایک ماہ پہلے متعلقہ ہائی کورٹ کے پانچ سینئر ججوں پر غور کرنے کے لیے اجلاس بلائیں گے۔

ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرریوں کے لیے عدالتی کمیشن کے سربراہ متعلقہ انتخابی کمیٹی سے نامزدگیاں 60 دن کے اندر طلب کریں گے، آسامی خالی ہونے سے کم از کم 30 دن قبل کمیشن کا اجلاس بلائیں گے تاکہ غور کیا جا سکے۔