دنیا

افغانستان میں حملہ: 14 افراد جاں بحق، داعش نے ذمہ داری قبول کرلی

2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں حملوں میں واضح کمی آئی ہے، لیکن علاقائی داعش-خراسان سمیت متعدد مسلح گروپ ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

افغانستان کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ مسلح افراد نے صوبہ دائی کنڈی میں فائرنگ کر کے 14 افراد کو قتل کر دیا جبکہ حملے کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ داعش کے مقامی باب نے قبول کرلی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گروپ کے عماق میڈیا ونگ نے ایک بیان میں کہا کہ وسطی افغانستان میں حملے میں 15 افراد جاں بحق اور 6 دیگر زخمی ہو گئے۔

یاد رہے کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں حملوں میں واضح کمی آئی ہے، لیکن علاقائی داعش-خراسان سمیت متعدد مسلح گروپ ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے کہا کہ نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے شہریوں کو قتل کر دیا۔

صوبے دائی کنڈی میں ایک ذرائع نے بتایا کہ اس حملے میں 14 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ متاثرہ گروپ عراق کے شہر کربلا سے واپس آنے والے زائرین کے استقبال کے لیے جمع ہوا تھا۔

دائی کنڈی کے صوبائی دارالحکومت نیلی شہر کے ایک ہسپتال کے ایک اہلکار نے بتایا کہ عملے کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عملے کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ زخمیوں کو لینے اور علاج کرنے کے لیے تیار رہیں۔

داعش-خراسان گروپ کی افغانستان کی شاخ ہے، ’خراسان‘ ایک تاریخی خطہ ہے جس میں ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے کچھ حصے شامل ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں داعش گروپ نے افغان دارالحکومت میں ایک خودکش حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 6 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

اس نے یہ بھی کہا تھا کہ مئی میں سیاحوں کو نشانہ بنانے والے حملے کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ تھا جس میں تین غیر ملکیوں سمیت 6 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مارچ میں، داعش نے ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال پر حملہ کرکے اور 145 افراد کو ہلاک کرکے اپنی وسیع تر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ایک اہلکار نے اس ماہ خبردار کیا تھا کہ داعش-خراساں یورپ کے لیے سب سے بڑا بیرونی دہشت گردی کا خطرہ ہے، جس نے گزشتہ چھ مہینوں میں اپنی مالی اور لاجسٹک صلاحیتوں کو بہتر کیا ہے۔

طالبان کے چیف حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ جو خدشات اٹھائے گئے ہیں وہ پروپیگنڈے کے ذریعے کارفرما ہیں اور بتایا کہ یہ گروپ افغانستان میں نمایاں طور پر کمزور ہو چکا ہے۔