پاکستان

لاہور ہائیکورٹ نے چیک کے غلط استعمال کے مقدمات میں مثال قائم کردی

جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس جواد حسن پر مشتمل ڈویژن بینچ نے محمد وسیم سے 7 کروڑ روپے کی ریکوری سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قانونی نظیر قائم کی۔

لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) راولپنڈی بینچ نے چیک ڈس آنر اور ریکوری کے مقدمات میں ضلعی عدالتوں کی جانب سے عدالتی اختیارات کے واضح غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس جواد حسن پر مشتمل ڈویژن بینچ نے محمد وسیم سے 7 کروڑ روپے کی ریکوری سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قانونی نظیر قائم کی۔

نجی کمپنی میپل لیف سیمنٹ نے رقم کا تقاضہ کیا اور الزام لگایا کہ وسیم کے غلط تخمینے کی وجہ سے انہیں 7.9 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، تصفیہ کے بعد وسیم سے کہا گیا کہ وہ 7 کروڑ روپے کا چیک جاری کریں، تاہم، ناکافی فنڈز کی وجہ سے چیک باؤنس ہوگیا، جس کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

ٹرائل کورٹ نے 1908 کے کوڈ آف سول پروسیجر کے آرڈر XXXVII کے تحت رقم کی وصولی کے لیے کمپنی کے حق میں ایک حکم نامہ پاس کیا، جو قرض شدہ رقم کی وصولی سے متعلق ہے۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ ڈویژن بینچ نے فیصلہ دیا کہ فریقین کے درمیان معاہدے کے بغیر آرڈر XXXVII کے تحت کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جواد حسن نے فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا کہ آرڈر XXXVII کا رول 2 صرف بلز آف ایکسچینج، ہنڈیز یا پرومسری نوٹ پر مبنی سمری سوٹ دائر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ 1881 کے نیگوشی ایبل انسٹرومینٹس ایکٹ کے تحت چیک ایک نیگوشی ایبل آلہ ہے، لیکن معاہدے پر فریقین کے مذاکرات کے بغیر ایسا مقدمہ شروع نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ مدعا علیہ کمپنی نے ایف آئی آر کی صرف ایک کاپی اور چیک پیش کیا بغیر کسی معاہدے یا معاہدے کے تعلق کے ثبوت کے۔

ہائی کورٹ نے اپیل کنندہ کی دفاع کے لیے اپیل کو قبول کرتے ہوئے ایک اہم مثال قائم کی جو قانونی تنازعات میں چیک کے غلط استعمال کو روکے گی۔

قانونی ماہرین کے مطابق، اس فیصلے سے کارکنوں اور افراد کو تحفظ فراہم کرنے کی امید ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ انہیں زبردستی چیک کے ذریعے بے جا ہراساں نہ کیا جائے۔