پاکستان

امن کے لیے جو کرنا پڑا کریں گے، گورنر راج کے سوال پر فیصل کریم کا جواب

وزیر اعظم سے کہا کہ اگر خیبر پختونخوا میں بدامنی ہو گی تو یہ نہ سمجھیں کہ پنجاب اور سندھ میں امن ہو گا، ہماری اولین ترجیح امن و امان ہے، گورنر خیبر پختونخوا

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال پر گورنر راج لگانے کا عندیا دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس صورت بھی ہو ہم نے اپنے صوبے کو امن و امان کا گہوارہ بنانا ہے، عوام کو انصاف اور امن دینا ہے اور امن کے لیے جو بھی کرنا پڑے ہم کریں گے۔

گورنر خیبر پختونخوا نے ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ابھی وزیر اعظم سے امن و امان کی صورتحال پر گفتگو ہوئی ہے اور انہیں انتہائی تشویش ہے کہ اس وقت ہماری پولیس سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے اور عوام کو تحفظ دینے والی فورس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سڑکوں پر نکالی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2009 سے اب تک صوبے کو این ایف سی ایوارڈ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ایک فیصد یعنی 600 ارب روپے ملے ہیں، وہ پیسے کدھر گئے ہیں، میری پولیس کی تنخواہیں سب سے کم ہیں، ان کے پاس گیجٹس نہیں ہیں، لیبارٹری نہیں ہیں، ہتھیار نہیں ہیں تو وہ پیسے آپ نے کونسی عیاشیوں میں خرچ کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق نے آپ کو اپنی سیکیورٹی کے لیے جو 600ارب روپے دیے تھے وہ کونسی عیاشیوں میں خرچ کیے ہیں، اگر ان پر خرچ نہیں ہوئے تو آج آپ ان کے ورغلا رہے ہیں کہ فوج اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں، آپ وفاقی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں، آپ نے آج تک ان کے لیے کیا کیا ہے۔

انہوں نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ آپ نے عیاشیاں اور کرپشن کر کے پیسے خرچ کیے ہیں اور آج آپ ان کے کہہ رہے ہیں کہ سڑکوں پر آئیں، آپ چاہ رہے ہیں کہ صوبے میں بدامنی اور خانہ جنگی ہو، یہ لوگ یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کررہے ہیں۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا یہ وطیرہ ہے کہ اگر وہ خود حکمران نہ ہوں، وزیر اعظم نہ ہوں تو چاہے پاکستان کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے، 9مئی کرنے والے بھی یہی تھے، جو آپ نے کیا ہے وہ دشمن ملک ہی کر سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اس حوالے سے وزیر داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالیں، میں نے ان سے کہا کہ آج بھی وقت ہے آپ اس مرض کا علاج کر لیں، اگر مرض لاعلاج ہو گیا تو پھر علاج نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیر اعظم سے کہا کہ اگر خیبر پختونخوا میں بدامنی ہو گی تو یہ نہ سمجھیں کہ پنجاب اور سندھ میں امن ہو گا، اگر یہ بدامنی افغانستان سے یہاں آئی ہے تو پھر یہاں سے آگے بھی جا سکتی ہے، اگر آپ نے اس آگ کو کنٹرول نہ کیا تو یہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

گورنر خیبر پختونخوا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پاس یہ اتھارٹی نہیں کہ وہ افغانستان سے بات کر سکیں، یہ ریاست اور فیڈریشن کی ذمے داری ہے، جب وزیر اعلیٰ جب وفد بھیجیں گے یا خود جائیں گے تو کیا ان طالبان کو وہ یہ بھی بتائیں گے کہ مشرف کی کابینہ میں صوبائی حکومت میں میرا والد بھی وزیر تھا اور جب ہم نے اڈے دیے تھے اور حملے ہو رہے تھے تو میرے والد اس کابینہ کا حصہ تھے اور آج میں آپ کے پاس یوٹرن مار کر آ رہا ہوں، ان کی تو پالیسی ہی سمجھ نہیں آتی۔

صوبے کے کچھ اضلاع میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عملداری ختم ہونے کے حوالے سے سوال پر گورنر نے کہا کہ ہمارے کچھ علاقے عصر کے بعد نوگوایریا بن جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان ٹانک روڈ پر میرا اور وزیر اعلیٰ کا حلقہ ہے اور آئی جی صاحب کا بھی علاقہ ہے، اگر جج اغوا ہوتے ہیں، ججوں پر فائرنگ ہوتی ہے تو وزیر اعلیٰ کے علاقوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کرنل، نادرا کا آفیسر اور تحصیل دار اغوا ہوتا ہے تو کولاچی میں وزیر اعلیٰ کا گھر ہے، ہمیشہ ایسے کام ان کے گھر اور ان کی زمینوں کے ساتھ ہی کیوں ہوتے ہیں، جو بھی ایسے کام ہوتے ہیں تو اس کا قرعہ وزیر اعلیٰ کے علاقوں تک کیوں چلا جاتا ہے۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس فوج کے خلاف قراردادوں کے لیے تو بلا لیا جاتا ہے لیکن کیا آپ نے امن و امان پر کوئی قرارداد منظور کی ہے، جو دہشت گرد آپ افغانستان یہ یہاں لے کر آئے تھے آج انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں، ہم کس کا گریبان پکڑیں، آپ لوگوں ہی تو لے کر آئے تھے۔

صوبے میں گورنر راج لگانے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح امن و امان ہے، جب کسی مرض کا علاج کرتے ہیں تو کسی مریض کی بہت شوگر بڑھنے پر اس کی ٹانگ کاٹ دی جاتی ہے تاکہ بقیہ جسم کو بچایا جا سکے تو ہماری ترجیح یہی ہے کہ جس صورت بھی ہو ہم نے اپنے صوبے کو امن و امان کا گہوارہ بنانا ہے، عوام کو انصاف اور امن دینا ہے اور امن کے لیے جو بھی کرنا پڑے ہم کریں گے، ہماری ترجیح صوبے میں امن و امان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پولیس، سول سوسائٹی، سیاستدانوں حتیٰ کے آرمی پبلک اسکول کے بچوں نے امن کے لیے قربانیاں دیں لیکن ان لوگوں نے اسے دوبارہ 2008 والی صورتحال میں پہنچا دیا ہے لیکن ہمیں اپنی فوج، پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر اعتماد ہے کہ اگر وہ ہمارے دشمنوں سے لڑ سکتی ہے تو چھوٹے موٹے گروہوں سے لڑ کر بھی امن لا سکتی ہے۔