پاکستان

اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا، شرح سود میں 2 فیصد کمی

پالیسی ریٹ کو 200 بیسس پوائنٹس سے کم کرکے 17.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مرکزی بینک

اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بنیادی شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے 17.5 فیصد مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔

مرکزی بینک کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آج پالیسی ریٹ کو 200 بیسس پوائنٹس سے کم کرکے 17.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مزید کہا کہ مہنگائی کو متاثر کرنے والے مختلف عوامل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ دو مہینوں کے دوران عمومی اور قوزی مہنگائی دونوں میں تیزی سے کمی ہوئی تاہم اس ارزانی کی رفتار کسی حد تک کمیٹی کی سابقہ توقعات سے تجاوز کرگئی جس کا بنیادی سبب توانائی کی مقررہ قیمتوں میں طے شدہ اضافے پر عملدرآمد میں تاخیر اور تیل اور غذا کی عالمی قیمتوں میں سازگار تبدیلی تھی۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ تیل کی عالمی قیمتیں تیزی سے کم ہوئی ہیں، گو کہ وہ بدستور تغیر پذیر ہیں جبکہ سرکاری زرمبادلہ رقوم کی کم آمد اور مسلسل قرضے کی واپسی کے باوجود 6 ستمبر تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً 9.5 ارب ڈالر موجود ہیں۔

مہنگائی کی توقعات اور کاروباری اداروں کے اعتماد میں بہتری آئی ہے لیکن صارفین کی توقعات میں کسی قدر بگاڑ آیا ہے جبکہ جولائی اگست کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی بھی ہدف سے کم تھی جن کو دیکھتے پوئے تخمینہ لگایا گیا کہ حقیقی شرح سود ابھی تک کافی حد تک مثبت ہے اور مہنگائی کو کم کرکے 5 سے 7 فیصد کے وسط مدتی ہدف تک لایا جا سکتا ہے جو معاشی استحکام کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو گی۔

مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا کہ اگست میں سیمنٹ اور پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت ماہانہ بنیادوں پر بماہ بنیاد پر بالترتیب 8.5 فیصد اور 6.8 فیصد بڑھ گئی البتہ شعبہ زراعت کا منظرنامہ کمزور ہوا ہے۔

اس کے علاوہ مہنگائی میں مسلسل کمی اور پالیسی ریٹ میں حالیہ کٹوتیوں کی بدولت صنعت اور سروسز کے شعبوں میں نمو کے امکانات کو تقویت ملے گی۔

کمیٹی کی رائے میں مالی سال 2025 کے دوران اوسط مہنگائی 11.5 تا 13.5 فیصد کی پچھلی پیش گوئی سے کم رہنے کا امکان ہے، تاہم اس تجزیے کا انحصار بر ہدف مالیاتی یکجائی کے حصول اور تخمین شدہ بیرونی رقوم کی بروقت آمد پر ہے۔

یاد رہے کہ شرح سود کے فیصلے پر اقتصادی اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے گہری نظر رکھی جا رہی تھی، اگرچہ بہت سے مالیاتی ماہرین شرح سود میں معمولی کمی کی پیش گوئی کی لیکن کاروباری برادری ترقی کو تیز کرنے کے لیے بہت زیادہ کمی کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مالیاتی ماہرین 150 بیسس پوائنٹس کی کمی کی توقع کر رہے ہیں، تاہم کچھ نے 200 بیسس پوائنٹس تک تنزلی کی پیش گوئی کی ہے، لیکن صنعتی رہنماؤں نے اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کے لیے 500 بیسس پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ کیا۔

حکومت نے بارہا کہا ہے کہ انٹریشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) سے حاصل کیا گیا 7 ارب ڈالر کا قرض آخری ہوگا، بشرطیکہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط وقت پر پوری ہو جائیں۔

مالیاتی ماہرین نے خیال ظاہر کیا تھا کہ وزارت خزانہ کے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ شرح سود میں تنزلی توقعات سے کم رہنے کا امکان ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا مقصد افراط زر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے 200 بیسس پوائنٹس سے زیادہ کی کمی نہیں کرنا چاہتا۔

اس سے قبل شرح سود 19.5 فیصد تھی جبکہ افراط زر کی شرح اگست میں 9.6 فیصد ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجے میں حقیقی شرح سود 10 فیصد تک پہنچ گئی تھی اور اس نمایاں فرق کی وجہ سے شرح میں نمایاں کمی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مالی سال 2024 کے پورے عرصے کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھا تھا جبکہ حالیہ مہینوں میں اس شرح میں لگاتار 2 دفعہ کمی کی گئی تھی، جس میں ابتدائی طور پر 150 بیسس پوائنٹس اور پھر 100 بیسس پوائنٹس کی کٹوتی کی گئی جس کی وجہ سے کل کمی 2.5 فیصد پوائنٹس تک پہنچ گئی تھی۔