پاکستان

سپریم کورٹ نے ڈیم فنڈ کی نگرانی پر ماہرین کی رائے طلب کر لی

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ فنڈز بڑھ کر 18.6 ارب روپے تک پہنچ گئے جس میں سے صرف 7.1 ارب روپے جمع شدہ رقم پر کمایا گیا منافع ہے۔

سپریم کورٹ نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز بنانے کے اپنے 2018 کے حکم نامے کے تحت کھولے گئے کھاتوں کی نگرانی جاری رکھنے کے حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے طلب کرلی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی بینچ نے سماعت کے بعد سابق اٹارنی جنرلز خالد جاوید خان اور انور منصور کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں عدالتی معاون مخدوم علی خان کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا۔

بینچ نے وفاقی حکومت اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کی گئی ایک درخواست کی سماعت کی جس میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ سے نیشنل بینک آف پاکستان میں واپڈا کے اکاؤنٹس میں رقوم کی منتقلی کی درخواست کی گئی تھی، یہ فی الحال اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ہے۔

درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ ہائیڈرو پاور جنریشن کے کام کرنے والے ادارے حکومت اور واپڈا کو دونوں ڈیمز کی تعمیر کے لیے بنائے گئے فنڈز کو صرف اور صرف خصوصی طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ فنڈز بڑھ کر 18.6 ارب روپے تک پہنچ گئے جس میں سے صرف 7.1 ارب روپے جمع شدہ رقم پر کمایا گیا منافع ہے۔

چونکہ فنڈز کے بارے میں معلومات کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا جیسے گزشتہ سال مرتب کیا گیا، سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو حکم دیا کہ وہ فنڈز کی صحیح نوعیت سے آگاہ کرے۔

واپڈا کی نمائندگی کرتے ہوئے بیرسٹر سعد رسول نے عدالت کو بتایا کہ اتھارٹی وقتاً فوقتاً رپورٹ پیش کرتی رہی ہے، تاہم عدالت نے ہدایت کی کہ 24-2023 کی پیش رفت رپورٹ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل پاکستان آفس کو بھجوائی جائے تاکہ اگر وہ چاہیں تو جامع بیانات درج کر سکیں۔

وکیل نے کہا کہ فنڈز وفاقی حکومت کے پاس جانے کے بجائے براہ راست واپڈا کو جاری کیے جائیں، اور یہ بھی تجویز کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فنڈز کی نگرانی آگے بڑھنے کا مؤثر طریقہ نہیں ہو سکتا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) چوہدری عامر رحمن نے آئین کے آرٹیکل 78 (2b) پر روشنی ڈالی جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ یا وفاق کے اختیار کے تحت قائم کی گئی کسی دوسری عدالت میں موصول ہونے والی یا جمع کی جانے والی تمام آمدنی یا رقم کو کنسولیڈیٹڈ فنڈ کا حصہ ہونا چاہیے، اور اسے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کے نام سے جانا جائے۔

اس طرح سپریم کورٹ کو موصول یا جمع کرائی گئی رقم فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹس میں جمع ہونی چاہیے، لہذا، سپریم کورٹ کی طرف سے فنڈز کو برقرار رکھنا مناسب نہیں ہوسکتا، انہوں نے عدالت کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ جب فنڈز منتقل کیے جائیں گے تو وہ خصوصی طور پر ڈیموں کی تعمیر کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

اس معاملے میں شامل مالیاتی طریقہ کار کے پیش نظر، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ یا تو اگلی سماعت میں شرکت کریں یا ایک سینئر افسر کو نامزد کریں جو کہ فنڈز کی ایگزیکیوٹنگ ایجنسی کے کھاتوں میں منتقلی کے معاملے میں عدالت کی مدد کرے۔

عدالت تین ہفتے بعد سماعت دوبارہ شروع کرے گی۔

یہ اکاؤنٹ سپریم کورٹ کے 2018 کے حکم کی تعمیل میں کھولا گیا تھا، جس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کی تھی جنہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے اکاؤنٹ میں بطور عطیہ 10 لاکھ روپے بھی جمع کرائے تھے۔

10 ستمبر 2018 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سپریم کورٹ کی عمارت میں جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کے بعد ایک ارب روپے سے زائد کا عطیہ دیا تھا۔

یہ اکاؤنٹ فراخدلی کے عطیات کے لیے عوامی اپیل کے ساتھ قائم کیا گیا تھا، جسے خصوصی طور پر ڈیمز کی تعمیر اور ترقی کے لیے مختص کیا گیا اور فی الحال اسے سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت چلانا جانا تھا۔

عدالتی حکم نامے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ اس اکاؤنٹ میں موجود رقوم کو کسی بھی صورت یا کسی وجہ سے ڈیمز کی تعمیر کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا، کسی بھی ابہام سے بچنے کے لیے، عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ کوئی بھی اتھارٹی یا محکمہ، بشمول ٹیکس حکام، اکاؤنٹ میں دیے گئے فنڈز کے ذرائع کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھیں گے، تاہم، فنڈز کا استعمال عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق آڈٹ سے مشروط ہوگا۔