پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں: ’9 مئی کو سیاسی چال بازیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے‘
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے طاقت کے حالیہ مظاہرے کے بعد سینئر پارٹی رہنماؤں کی گرفتاری کی نئی لہر یاد دلاتی ہے کہ اس وقت ملک کس قدر سیاسی تناؤ کی زد میں ہے۔
اب جو کچھ ہورہا ہے یہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس پر کام کچھ عرصے سے ہورہا تھا، دونوں فریق ہی واقف تھے کہ یہ کسی نہ کسی موڑ پر سنگین رخ ضرور اختیار کرے گا۔ 8 ستمبر کی ریلی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے کی گئیں سخت تقاریر نے محرک فراہم کیا۔
اسلام آباد میں عوامی اجتماعات کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا ایک متنازع قانون جوکہ اپوزیشن کے جلسے سے چند روز قبل عجلت میں منظور کیا گیا، اسے اب کریک ڈاؤن کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن اب بات الفاظ کی جنگ سے آگے بڑھ چکی ہے اور یہ یہاں رکے گی بھی نہیں۔ اپوزیشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے باوجود ان کے پاور شو نے حکمران اتحاد کو بے چین کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اعلیٰ رہنماؤں کی گرفتاریاں انتظامیہ کی بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چند اراکین کو پارلیمنٹ لاجز کے اندر سے گرفتار کیا گیا جوکہ واضح طور پر ایوان کے ضابطوں اور تقدس کی پامالی ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ پولیس کبھی بھی حکام کے احکامات کے بغیر پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وزیردفاع نے اس اقدام کا دفاع کیا، کہا کہ ایسا پی ٹی آئی رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے ہوا۔
وفاقی کابینہ کے ایک سینئر وزیر کی جانب سے غیرقانونی اقدام کا دفاع کرنے سے زیادہ مضحکہ خیز کچھ نہیں ہوسکتا۔ زیرِ حراست کچھ افراد پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ہماری پارلیمانی تاریخ میں اس طرح قانون کی پامالی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پولیس کو پارلیمانی حدود میں داخلے کی اجازت دے کر حکومت نے جمہوری سیاسی عمل کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا ہے جبکہ ماورائے آئین قوتوں کو مضبوط کیا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے پی ٹی آئی کے گرفتار اراکینِ اسمبلی کو رہا کرنے کا جو حکم جاری کیا گیا ہے وہ قابلِ تعریف اقدام ہے لیکن یہ ایوان کا تقدس بحال کرنے کے لیے کافی نہیں۔ یہ ان لوگوں کے خلاف کچھ نہیں کرتا جن کے حکم پر اس طرح کی کارروائی کی گئی۔
رواں ہفتے کے واقعات سے ملک میں پہلے سے زیادہ تقسیم پیدا ہوگئی ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو مبینہ طور پر اسلام آباد میں کئی گھنٹے تک روکے رکھنے کی اطلاعات تھیں۔ اس طرح کی کارروائیاں صوبے میں عدم استحکام کو مزید بھڑکا سکتی ہے جہاں پہلے ہی حالات مثالی نہیں۔ یہ قوم کے اتحاد کے لیے منفی ثابت ہوگا۔
یہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے لیے بھی امتحان کا وقت ہے جو اندرونی اختلافات کا سامنا کررہی ہے۔ پارٹی کو بلاشبہ بے پناہ عوامی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود کوئی مربوط قیادت نہیں جو پارٹی کا چارج سنبھال سکے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور چند دیگر اراکین کی جانب سے کی گئی اشتعال انگیز تقاریر نے پی ٹی آئی کے مقصد کو بڑی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح کی نفرت انگیز بیان بازی پارٹی کی اندرونی تقسیم میں اضافے کا باعث بنے گی۔ یہ پارٹی صرف اس لیے ابھی تک کھڑی ہے کیونکہ اس کے سپورٹرز کی توجہ جیل میں قید اپنے لیڈر پر مرکوز ہے۔ تاہم عمران خان کے جیل سے جلد باہر آنے کے امکانات انتہائی کم ہیں، ایسے میں پارٹی کی صفوں میں اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے۔
صرف قانونی جنگ ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے بھی عمران خان ابھی تک جیل میں قید ہیں۔ سابق وزیر اعظم پر 9 مئی کے پُرتشدد فسادات اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی بازگشت ہورہی ہے۔ بعض وفاقی وزرا کے بیانات نے اس امکان کی جانب اشارہ کیا جس سے قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے۔
دوسری جانب سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور ٹرائل نے بھی ان خدشات کو تقویت دی کہ عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ میڈیا کے کچھ سیکشنز یہ رپورٹ کررہے ہیں کہ سابق آئی ایس آئی چیف مبینہ طور پر 9 مئی کے واقعات میں ملوث تھے۔ یہ بلاشبہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پھوٹنے والے 9 مئی کے فسادات کو 16 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اسے جی ایچ کیو راولپنڈی اور کورکمانڈر ہاؤس لاہور سمیت ملک کی مختلف فوجی تنصیبات پر منظم اور مربوط حملے کے طور پر دیکھا گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حساس سیکیورٹی تنصیبات پر حملہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو گمان ہوتا ہے کہ جیسے 9 مئی کے واقعات کو سیاسی چال بازیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا۔ ملٹری ترجمان کے مطابق واقعے سے تعلق کے الزام میں دیگر افراد کے خلاف بھی ایکشن لیا گیا جن میں ٹو اور تھری اسٹار آفیسرز بھی شامل ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی۔ جبکہ حراست میں لیے گئے بہت سے افراد کو بعد میں عدالتوں نے رہا کردیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی سلامتی کے اتنے اہم معاملے پر کبھی عوامی سطح کی کوئی انکوائری نہیں کی گئی لیکن اس کے باوجود 9 مئی پی ٹی آئی کے خلاف حکمران اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی بیانیے کا حصہ ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی کشیدگی میں بار بار اٹھایا جاتا ہے۔ فیض حمید کی گرفتاری نے ایک بار پھر 9 مئی کے معاملے کو سیاسی بحث کا حصہ بنا دیا ہے۔
اب عمران خان پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلائے جانے کے امکانات کی بات ہورہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پہلا موقع ہوگا کہ پاکستان کا کوئی سابق وزیر اعظم فوجی عدالت میں پیش ہو۔ ایسے کسی بھی امکان کے جمہوری عمل اور قومی استحکام کے لیے سنگین اور طویل مدتی نتائج مرتب ہوں گے۔
ضروری ہے کہ 9 مئی کے واقعے کی تحقیقات کروائی جائیں اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔ لیکن یہ پورا واقعہ اہم دفاعی تنصیبات کی حفاظت میں سیکورٹی فورسز کی ناکامی پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ غیر مسلح لوگوں کا ایک نسبتاً چھوٹا ہجوم بغیر کسی مزاحمت کے ایسے حساس مقامات میں داخل ہوکر سیکیورٹی کی خلاف ورزی کیسے کرسکتا ہے؟ حساس فوجی احاطے میں ایک ہجوم کیسے داخل ہوسکتا ہے؟
فوج کے مطابق کئی افسران کے خلاف کارروائی کی گئی جس کی وجہ سے بہت سے مبصرین نے یہ پوچھا کہ کیا 9 مئی کی سازش میں اندر سے لوگ شامل تھے۔ قصوروار پائے جانے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہوگی لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایسی سازش میں خراب ریکارڈ رکھنے والے فوجی اہلکار بھی شامل تھے یا نہیں۔
اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کیا ان افسران اور پی ٹی آئی کی قیادت کے درمیان کوئی تعلق تھا۔ ان سوالات کے جوابات ملنے چاہئیں۔ اور یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہونا چاہیے بلکہ سیکورٹی کی اس سنگین خلاف ورزی کی ذمہ داری بھی اعلیٰ افسران پر عائد ہوتی ہے۔
9 مئی کے واقعے پر سیاست کرنے کے بجائے ہمیں اس انتہائی سنگین سیکیورٹی معاملے کی آزادانہ انکوائری کروانی چاہیے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔