پاکستان

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر رہا، ’اراکین کے ریمانڈ کو چیلنج کریں گے‘

جن رہنماؤں کا 8 روزہ ریمانڈ دیا گیا ہم اس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے، ایک دوسرے کے لیے بہت راستے بند کیے لیکن اب راستہ ڈھونڈنا ہو گا، بیرسٹر گوہر

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کو تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں ڈسچارج کرتے ہوئے رہا کردیا۔

ڈان نیوز کے مطابق بیرسٹر گوہر کو اسلام آباد کے تھانہ سنگجانی کے مقدمے میں ڈسچارج کرنے کے بعد رہا کردیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کے خلاف تھانہ سنگجانی میں مقدمہ درج تھا۔

رہائی کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج 10 ستمبر 2024 پاکستان کی جمہوریت میں سیاہ دن مانا جائے گا، پاکستان تحریک انصاف اس دن کو نہیں بھولے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کل نقاب پوش ایوان میں داخل ہوئے اور ہمارے دس ایم این اے گرفتار ہوگئے، میں خود باہر گرفتاری دینے آیا تھا کیونکہ ہم نے مزاحمت کبھی نہیں کی ہے نہ کرتے ہیں، میں کل خود گرفتاری دے دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے پارلیمان میں پتا چلا تھا کہ اسمبلی کے دروازے کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، اسمبلی کے دروازے کے باہر سے میں اور شیر افضل مروت گرفتار ہو گئے تھے، شعیب شاہین دفتر سے گرفتار ہو گئے تھے اور اس کے بعد ہمارے دس اراکین قومی اسمبلی کو نقاب پوشوں نے اسمبلی کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔

ایک دوسرے کے لیے بہت راستے بند کیے لیکن اب راستہ ڈھونڈنا ہو گا، بیرسٹر گوہر

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایوان پر حملہ ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ اسپیکر صاحب اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے، اس مرتبہ سی سی ٹی وی فوٹیج منظرعام پر آئے گی اور کسی عام بندے کو سزا نہیں ملے گی بلکہ معاملے کی تہہ تک جایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کارکنوں اور بچوں کو زدوکوب کیا گیا، ہماری چادر اور چار دیواری کی پامالی کی گئی، ہمارے بچوں کی تعلیم پر اثرانداز ہوئے، ہمارے الیکشن کے نتائج کو تبدیل کیا گیا لیکن ہم ڈرنے کی طرف نہیں گئے، ہم بائیکاٹ کی طرف نہیں گئے بلکہ ہم پارلیمان میں گئے تاکہ ہم پارلیمان میں رہ کر اپنا کردار ادا کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو آپ کو جگہ نہیں دیں گے تو غیرسیاسی قوتیں زور پکڑیں گی، انتہا پسند اور علیحدگی پسند قوتیں زور پکڑیں گی، ایک دوسرے کے لیے بہت راستے بند کیے لیکن اب راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔

بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ دنیا کے کون سے ملک ملک میں جلسے کو 7 بجے کے بجائے ساڑھے آٹھ بجے ختم کرنے کو جرم تصور کیا جاتا ہے، میں گرفتار ہو کر گیا، مجھے بھی اسلام آباد پولیس نے رکھا تو ڈیڑھ گھنٹے قبل کہا گیا کہ آپ نہ اس مقدمے میں درکار ہیں اور نہ آپ کی گرفتاری ہمیں مطلوب ہے۔

انہوں نے کہاکہ دنیا کا کون سا قانون کہتا ہے کہ اگر آپ سات کے بجائے ساڑھے آٹھ بجے تک جلسہ کریں گے تو آپ کے خلاف پرچے ہوں گے، رکن قومی اسمبلی کو اتھا کر زدوکوب کیا جائے گا، پارلیمان میں چار پانچ بندوں کے سوا ہماری کوئی نمائندگی نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو جوڈیشل پیکج آ رہا ہے ہم اس کی شدید مذمت کریں گے، ہماری عدلیہ سے درخواست ہے کہ دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس یا ججوں کی مدت ملازمت میں کسی بھی قسم کی توسیع عدلیہ کی آزادی پر قدغن ہے، یہ ایک نظریے کے تحت نہیں بلکہ نوازنے کے لیے دی جا رہی ہے، پاکستان کے عوام اپنے عدلیہ سے امید کرتے ہیں کہ عدلیہ اپنا کردار ادا کرے گی، نہ ایکسٹینشن قبول کرے گی نہ ہم اس کو قبول کریں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے جن رہنماؤں کا 8 روزہ ریمانڈ دیا گیا ہم اس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے، یہ ایسے کیسز نہیں ہیں جس میں آپ دہشت گردی کے ٹھپے لگا کر لوگوں کو بند کریں کیونکہ کوشش یہ کیا جا رہی ہے کہ ہمارے اراکین قومی اسمبلی کو توڑا جائے لیکن وہ خان صاحب کے نظریے کے ساتھ رہیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمان میں نقاب پوش افراد کے داخلے اور اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پارلیمان پر حملہ ہے، ایوان کی توہی ہوئی ہے اور اسپیکر پر لازم ہے کہ اس پر کارروائی کریں۔

قومی اسمبلی میں گرفتاری کی مذمت

اس سے قبل آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے احاطے سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں گزشتہ روز کے واقعےکو سنجیدہ لینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 2014 میں پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا اس کا مقدمہ درج ہوا تھا، اگر ضرورت پڑی تو گزشتہ روز کے واقعے کی بھی ایف آئی آر کٹواؤں گا، اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہے، کل جو کچھ ہوا اس کی فوٹیجز چاہیے، تاکہ ذمے داروں کا تعین ہو سکے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پورے آئین اور پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے اندر گھس کر اراکین کو گرفتار کیا گیا تو باقی کیا بچا، یہاں ہاؤس میں آئیں گے اور آپ کو گرفتار کریں گے، اس پر آپ کو سنجیدہ انکوائری کرکے سنجیدہ ایکشن لینا پڑے گا۔

نوید قمر نے کہا کہ اگر ایکشن نہ لیا گیا تو پھر یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں، یہ تو شروعات ہے، جب پارلیمنٹ پر حملے کی بات ہو تو ہم سب ایک ساتھ کھڑے ہوں، یہاں تو عزت کیا، یہاں تو مجھے مستقبل ہی نظر نہیں آرہا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل رات ہمارے رہنماؤں کو پارلیمنٹ ہاؤس، مسجد اور حجرے سے اٹھایا گیا، کل رات جو ہوا، وہ پاکستان کی جمہوریت کا 9 مئی تھاجسے پاکستان کی تاریخ میں ایک کالے باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے گزشتہ رات پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے سے بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کو گرفتار کر لیا تھا جبکہ شعیب شاہین کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت گاڑی میں سوار ہو کر نکلنے لگے تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا تھا۔