نقطہ نظر

دی کلائمیٹ بُک: قدرتی ذرائع کے استعمال کو تبدیل کرنے کا انجام

جنگلی حیات کے ساتھ اپنے ابتدائی تعلق میں ہی انسان نے قدیم جانوروں کے ارتقائی مقدر کا تعین کیا جس نے بتایا تھا کہ اُن کا انجام کیا ہوسکتا یا کیا ہونے جارہا ہے۔

نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


گریٹا تھیونبرگ کی کتاب دی کلائمیٹ بُک میں چھپنے والے اپنے مضمون میں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ماحولیات اور ارتقائی حیاتیات کے پروفیسر بیت شپرو کہتے ہیں کہ انسانوں کے ارتقائی اثر کا سب سے پرانا ثبوت سیارے پر انسانی قیام کی سب سے قدیم مقامات جیسے قدیم براعظموں اور جزائر سے برآمد ہونے والی جانداروں کی باقیات سے ملتا ہے۔

پچاس ہزار سال پہلے جب لوگ افریقہ سے باہر نکل کر دنیا بھر میں پھیل گئے تو جو بھی جاندار گئے، اُن کی تعداد میں کمی آنے لگی۔ جانور کی اقسام خصوصاً بڑے جانور، جیسے کہ بڑے وومبیٹس، وولی رائنوسیروس اور بڑے سلوتھس (بہت ہی قوی الجثہ جانور) ختم ہونے لگے۔ آئیے مزید تفصیل مصنف کی زبانی جانتے ہیں۔

ہمارے آباؤ اجداد کی شکاری مہارتیں

ہمارے آباؤ اجداد منفرد طریقے سے شکار کرنے سے باخوبی واقف تھے۔ وہ ایسے ہتھیار بناتے تھے جو کامیاب شکار کے امکانات بڑھاتے تھے اور وہ ان ہتھیاروں کو تیزی سے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ بڑے جانوروں کا معدوم ہونا اور انسانوں کی پہلی موجودگی بیک وقت ہونے کے آثار افریقہ کے علاوہ تمام براعظموں کی باقیات میں ملتے ہیں۔ لیکن ایسا بیک وقت ہونا کوئی اتفاق نہیں تھا۔

انسان جہاں گیا وہاں کا قدرتی ماحول بدل ڈالا

یورپ، ایشیا اور امریکا میں انسانوں کی آمد اور مقامی بڑے جانوروں کی معدومیت موسمیاتی اتار چڑھاؤ کے دوران ہوئی جس کی بنا پر دہائیوں تک بحث ہوئی کہ ان دو قوتوں یعنی انسانوں کی آمد اور موسمیاتی تبدیلی، مقامی بڑے جانوروں کی معدومیت کے کتنے ذمہ دار ہیں۔

اس کا اصل ثبوت آسٹریلیا سے ملتا ہے جہاں پر انسانوں سے وابستہ سب سے قدیم معدومیت ریکارڈ کی گئی ہیں اور انسانوں کے باعث وہاں کے جزائر پر چند سو سال پہلے ہونے والی معدومیت کے نتیجے میں آوٹیروا (نیوزی لینڈ) کی موا اور موریشیائی ڈوڈو (مرغی کی طرح پرندے جو اُڑتے نہیں ہیں) دونوں ختم ہوگئے۔

آسٹریلوی اور مزید حالیہ جزائر کی معدومی کسی خاص موسمیاتی تبدیلی کے دوران نہیں ہوئی اور نہ ہی قدیم موسمیاتی واقعات کے دوران معدومی کے شواہد ملے ہیں۔ بلکہ یہ معدومی دیگر براعظموں کی طرح انسانوں کی موجودگی کے باعث مقامی ماحول میں تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔

جنگلی حیات کے ساتھ اپنے ابتدائی تعلق میں ہی انسان نے قدیم جانوروں کے ارتقائی مقدر کا تعین کرنا شروع کردیا تھا یعنی انسان کے اُن کے ساتھ رویے سے پتا چل رہا تھا کہ اُن کا انجام کیا ہوسکتا یا کیا ہونے جارہا ہے۔

پالتو اور جنگلی جانوروں کی درجہ بندی

پندرہ ہزار سال پہلے انسان دیگر جانداروں کے ساتھ برتاؤ کرنے کے ایک نئے دور میں داخل ہوگیا تھا۔ خاکستری بھیڑیے جو خوراک کے لیے انسانی آبادیوں میں چلے آئے اُنہیں پالتو کتوں میں بدل دیا تھا اور نتیجتاً دونوں جاندار یعنی کتے اور انسان اپنے تعلق سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔

جب آخری برفانی دور ختم ہوگیا اور موسم میں بہتری آئی تو پھیلتی ہوئی انسانی آبادیوں کو کھانے، کپڑے اور رہائش کے قابل بھروسہ ذرائع کی طلب ہوئی۔ تقریباً 10 ہزار سال پہلے لوگ شکار کرنے کی ایسی حکمت عملی اپنانے لگے جو شکار کی آبادی کو ختم نہیں کرتی تھی بلکہ شکار بننے کے باوجود جانوروں کی نسل جاری رہتی تھی۔

کچھ شکاری صرف نر یا غیر تولیدی ماداؤں کا شکار کرتے تھے اور بعد میں شکار والے جانوروں کو باڑوں اور اپنی رہائش کے قریب رکھنے لگے۔ جلد ہی لوگوں نے قابو میں آنے والے جانوروں کی نسلیں جاری رکھیں اور جو اقسام قابو میں نہ آئیں انہیں شکار کرکے کھانے کا فیصلہ کیا۔

انسان نے زمین اور جانداروں کا استعمال کیسے بدلا

انسانوں کے تجربات جانوروں تک محدود نہیں رہے۔ انہوں نے بیج بوئے اور ایسے بیجوں کو منتخب کیا جو فی پودا زیادہ خوراک پیدا کرتے تھے یا دوسرے پودوں کے ساتھ کٹائی کے لیے تیار ہوتے تھے۔ انہوں نے آب پاشی نیٹ ورکس بنائے اور جانوروں کو کاشت کاری کے لیے زمین صاف کرنے کی تربیت دی۔

جب ہمارے قدیم آباؤ اجداد شکاری سے چرواہوں اور کسانوں سے غلہ ذخیرہ کرنے والوں میں تبدیل ہوگئے تو وہ زمین جس پر وہ رہتے تھے اور جانور جن پر وہ مزید بھروسہ کر رہے تھے، اُن کے استعمال کو تبدیل کردیا۔

نیچر کی حفاظت کی جانب واپسی

بیسویں صدی کے موڑ پر ہمارے آباؤ اجداد کسانوں اور ماہرین کی کامیابیاں ان معاشرتوں کی پائیداری خطرے میں ڈال رہی تھیں جنہیں انہوں نے تخلیق کیا تھا۔ جنگلات کو گھاس کے میدانوں اور پھر زرعی زمینوں میں بدل دیا گیا اور یوں زمین زرعی مقاصد کے لیے مسلسل استعمال کے باعث اپنی قدری خصوصیات کھونے لگی۔

ہوا اور پانی کے معیار میں کمی آنے لگی۔ معدومیت کی شرح پھر سے بڑھنے لگی۔ اس دفعہ تباہی زیادہ واضح تھی کیونکہ اب کی بار لوگ دولت مند اور ٹیکنالوجی جدید تھی۔ جب ہر طرف پھیلے ہوئے جاندار کم ہونے لگے تو جنگلی جانوروں اور اُن کے مسکنوں کی حفاظت کی بات ہونے لگی۔

انسان دوبارہ سے دیگر جانداروں سے برتاؤ کرنے کے نئے مرحلے میں داخل ہوگئے۔ وہ اُن کے محافظ بن گئے کیونکہ وہ جنگلی حیات اور ماحول کو لاحق قدرتی اور انسانی خطرات سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور یوں انسان ہر جاندار کے مقدر اور اس کے مسکن کا فیصلہ کرنے والی ارتقائی قوت بن گیا۔

مجتبیٰ بیگ

لکھاری معروف ماحولیاتی مصنف اور مترجم ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔