دنیا

برطانیہ کی افغان سفارتخانے کو بند کرنے کی ہدایت

یہ فیصلہ میزبان ملک کی ہدایت کے مطابق کیا گیا، ہم اپنے تمام ساتھیوں، شہریوں اور متعلقہ اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، افغان سفیر زلمی رسول

برطانوی حکومت نے لندن میں افغان سفارت خانے کو سفارتی مشن بند کرنے کی ہدایت کر دی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے بارے میں برطانیہ میں تعینات افغانستان کے سفیر زلمی رسول کو اطلاع دے دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک بیان میں زلمی رسول نے بتایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ افغانستان لندن میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے والا ہے اور 27 ستمبر 2024 کو میزبان ملک کی درخواست پر اپنی سرگرمیاں بند کر دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ میزبان ملک کی ہدایت کے مطابق کیا گیا، ہم اپنے تمام ساتھیوں، شہریوں اور متعلقہ اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے اس مدت کے دوران لندن میں افغان سفارت خانے کے ساتھ تعاون کیا۔

یہ بندش عبوری افغان طالبان حکومت کے حالیہ اعلان کے بعد کی گئی ہے جس میں 14 سفارت خانوں کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کو غیر مؤثر قرار دیا گیا ہے جس میں لندن کا ایک سفارتخانہ بھی شامل ہے۔

یہ درجنوں سفارت خانے اب بھی افغانستان کی سابق حکومت کے مقرر کردہ سفیروں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ طالبان حکومت کے احکامات پر عمل کرنے سے انکاری ہیں۔

خبروں کے مطابق ان میں سے بہت سارے سفارتخانے طالبان حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے خود مختار حیثیت میں کام کرتے رہے ہیں اور انہیں مالی تعاون میں کمی کا بھی سامنا رہا ہے۔

گزشتہ سال ’فارن پالیسی میگزین‘ کی طرف سے شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ان سفارت خانوں میں کام کرنے والے سفارت کار جن میں سے اکثر مغربی تعلیم یافتہ ہیں اور 2001 کے بعد افغانستان کے ادارے تعمیر کرنے میں کئی دہائیاں گزار چکے ہیں اب وہ خود غیر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں اور مایوسی، افسردگی اور لاچاری کا شکار ہیں۔

خیال رہے طالبان کے حکومت میں آنے کے 3 سال بعد بھی انہیں بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا ہے۔

طالبان حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انتہا پسند گروپوں سے روابط نے ان کے لیڈروں کو تنہا کر دیا ہے اور ملک کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کر دیا ہے، تاہم روس، چین اور پاکستان سمیت کچھ ممالک نے اپنے اپنے ممالک میں سفارت خانے طالبان کے مقرر کردہ سفیروں کے حوالے کر دیے ہیں لیکن امریکا سمیت بیشتر مغربی ممالک نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔