پاکستان

علما کا سپریم کورٹ سے مبارک ثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ فوری جاری کرنے پر زور، تاخیر پر شکوک کا اظہار

تاخیر کے باعث تشویش ہے، عدالت صورتحال کا نوٹس لے، بصورت دیگر ختم نبوت کا دفاع کرنے والے دوبارہ سڑکوں پر آجائیں گے، ختم نبوت کانفرنس میں مقررین کا انتباہ

مذہبی علما نے سپریم کورٹ سے مبارک ثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ فوری طور پر جاری کرنے پر زور دیتے ہوئے اس کے اجرا میں تاخیر پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کی جانب سے گریٹر اقبال پارک کے وسیع و عریض لان میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ 22 اگست کو مبارک ثانی کیس کا مختصر حکمنامہ جاری کیا گیا تھا، لیکن تفصیلی فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔

اس ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد جے یو آئی(ف) کی جانب سے اس معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے جشن کے طور پر کیا گیا جب کہ پارٹی نے اسے اپنی قانونی فتح قرار دیا۔

مقررین نے کہا کہ مختصر فیصلے کا اعلان ہوئے 15 دن ہو چکے ہیں لیکن اب بھی تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے، اس سے مذہبی حلقوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔

علمائے کرام نے دعویٰ کیا کہ عدالت کو دو مرتبہ گمراہ کیا گیا، اس کے بعد مذہبی علما نے فیصلے کو درست کرنے میں مدد کی، انہوں نے کہا کہ تاخیر کے باعث تشویش ہے، انہوں نے عدالت سے اس صورتحال کا نوٹس لینے کی اپیل کی۔

انہوں نے متبنہ کیا کہ بصورت دیگر وہ لوگ جنہوں نے پہلے ختم نبوت کا دفاع کیا، وہ دوبارہ سڑکوں پر آجائیں گے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق رات گئے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے مینار پاکستان میں یہ عظیم الشان اجتماع عوامی اسمبلی ہے، اب یہ اسمبلی فیصلے کرے گی اور قانون پاس کرے گی۔

ان کا کہنا تھا عقیدہ ختم نبوت پر پوری امت کا اتفاق ہے، اس کا ہمیشہ دفاع کرتے رہیں گے، بہت سے لوگوں نے کہا اسرائیل کو تسلیم کر لو، ہم نے کراچی میں ملین مارچ کر کے ان کی زبان بند کر دی، اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین میں اسرائیل کا ظلم و بربریت جاری ہے، ہم فلسطینیوں کی آواز میں آواز ملاتے رہیں گے، امریکا کبھی بھی انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا وہ مبارک ثانی کیس کے تفیصلی فیصلے کے منتظر ہیں، امید ہے تفیصلی فیصلے پر علما کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا وہ لوگوں کی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی تحریک کی مخالفت نہیں کرتے لیکن ملک توڑنے کی تحریک چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔