پاکستان

عمران خان کے جیل ٹرائل میں صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے 3 وکلا پر مشتمل کمیشن قائم

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے پی ٹی آئی وکلا کو اڈیالہ جیل داخلے سے روکنے کے خلاف درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹادی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے جیل ٹرائل میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے 3 وکلا پر مشتمل کمیشن قائم کر دیا، کمیشن جیل ٹرائل کے دوران عمران خان کے وکلا کو درپیش مسائل سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر عملداری کا جائزہ لے کر عدالت کو آگاہ کرے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے پی ٹی آئی وکلا کو اڈیالہ جیل داخلے سے روکنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی، عدالتی حکم پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل راولپنڈی عبد الغفور انجم عدالت میں پیش ہوئے، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نعیم سنگھیڑا اور ایک 190 پاؤنڈز ریفرنس کے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ عبد الغفور انجم روسٹرم پر آئے اور مؤقف اپنایا کہ تمام معزز وکلا کو بغیر رکاوٹ باعزت طریقے سے جیل داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ وکلا کی شکایت ہے کہ گاڑیاں جیل سے دور کھڑی کروائی جاتی ہیں، پانی تک پینے کو موجود نہیں، اس پر سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل نے بتایا کہ جن وکلا کا وکالت نامہ ہے ان کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے ریمارکس دیے کہ یہ تو دو متضاد باتیں سامنے آگئی ہیں، کیا عمران خان کوئی دہشت گرد ہیں کہ اتنی سیکیورٹی میں ٹرائل کرنا ہے؟ ملزم کو وکلا سے ملاقات کی اجازت لازم ہے، یہ اجازت نہ دینا براہ راست توہین عدالت ہے، قیدی اپنے وکیل سے کیا گفتگو کرتا ہے، یہ سننے کے لیے اہلکار کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ وکیل فیصل چوہدری نے گزشتہ روز اپنا وکالت نامہ ٹرائل کورٹ میں جمع کروایا ہے، نیب لازم فریق تھا لیکن نیب کو اس کیس میں فریق نہیں بنایا گیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ درخواست گزار اور جیل حکام کے بیچ کا معاملہ ہے، نیب کا کوئی تعلق نہیں، سب کو پتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے، اس میں جیل انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں۔

پراسیکیوٹر جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ہم بیان حلفی دیتے ہیں کہ آئندہ ایسی کوئی شکایت نہیں ہوگی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی کی اگر خلاف ورزی کی گئی تو وہ بھی توہین عدالت ہوگی۔

جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے مزید دریافت کیا کہ وکلا کی گاڑی ایک کلومیٹر دور کیوں کھڑی کروائی جاتی ہے؟ ہمیں میوزیکل چیئر کو بھولنا نہیں چاہیے، ہو سکتا ہے کہ کل یہ لوگ آپ کی جگہ کھڑے ہوں۔

عدالت نے فیصل چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کو پراسیکیوشن کی طرف کھڑے ہو کر دلائل دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

اس پر سپرنٹنڈنٹ جیل نے عدالت کو بتایا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر وکلا کی گاڑیاں گیٹ تک نہیں جانے دی جاتیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس ملک میں لفظ سیکیورٹی کا سب سے زیادہ غلط استعمال کیا جاتا ہے، گاڑیاں وکلا کو گیٹ پر چھوڑ کر واپس پارکنگ میں جا سکتی ہیں، آپ گاڑیوں کی چیکنگ کریں، اس کے ساتھ سیکیورٹی کا کیا مسئلہ ہے؟

پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جن وکلا کے وکالت نامے ہیں ان کو یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے، 25 سے 30 وکلا آ جاتے ہیں تو ان تمام کے لیے یہ سہولت نہیں دے سکتے۔

اس موقع پر عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے مؤقف اپنایا کہ ہمارے ساتھ پچھلے ایک سال سے یہ نارواں سلوک کیا جا رہا ہے جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے ریمارکس دیے کہ پورے ملک کے ساتھ یہ پچھلے 75 سال سے کیا جا رہا ہے، آپ ایک سال کی بات کر رہے ہیں؟ اگر دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں تو سارا دن لے لیں، لیکن یہ باتیں کیس سے غیر متعلقہ ہیں، اس عدالت کے پاس اس مسئلے کے حل کے دو ہی آپشن موجود ہیں، ایک تو یہ کہ ٹرائل جیل سے کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے، دوسرا آپشن یہ ہے کہ کسی نوجوان وکیل کا کمیشن بنا دوں، وہ وکیل اڈیالہ جیل جائے گا اور کوئی اونچ نیچ ہو تو عدالت کو رپورٹ کرے گا۔

عدالت نے مزید دریافت کیا کہ کیا اوپن ٹرائل میں پبلک کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں؟ پبلک کے کون لوگ عدالت میں موجود ہوں گے، اس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ جیل عدالت کمیونٹی سینٹر ہے، پرانے سینما کی طرح ہے، جہاں فلم چلتی تھی۔

اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے ریمارکس دیے کہ ابھی بھی وہاں فلم ہی چلا رہے ہیں، پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں ٹرائل جج موجود ہوتے ہیں، ان کی عدالت میں درخواست دائر کی جائے، ٹرائل جج مناسب سمجھیں تو کوئی ڈائریکشن بھی جاری کر سکتے ہیں، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا کہنا تھا کہ وہاں سے کوئی ڈائریکشن نہیں آئے گی، آپ کو بھی پتا ہے اور ہمیں بھی پتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے اڈیالہ جیل کی صورتحال کا جائزہ لینے اور نگرانی کے لیے تین وکلاء پر مشتمل کمیشن قائم کردیا اور ہدایت کی کہ درخواست گزار وکلا لوکل کمشنر کو ہر وزٹ پر 10 ہزار روپے ادا کریں گے، عمران خان کے ہر وکیل کے ساتھ تین معاونین جیل ٹرائل میں جائیں گے۔

اس پر پراسیکیوٹر جنرل نے استدعا کی کہ تین معاونین ساتھ لے جانے کا آرڈر نہ کریں کیونکہ وہاں جگہ بھی کم ہے، جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ جیل ٹرائل کرنے کا فیصلہ بھی تو آپ نے کیا ہے، اگر ملزم 900 سو وکیل بھی رکھنا چاہتا ہے تو اس کو اجازت ہوگی، جب جیل ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت دیکھ لیتے کہ کیا پیچیدگیاں ہوں گی، آپ پبلک کے لوگوں کو کم کر دیں متعلقہ لوگوں کو جانے کی اجازت دیں، اگر ایسا ہے تو میں کمرہ عدالت میں موجود پبلک کے لوگوں کی بک طلب کروں گا، دیکھا جائے گا کہ کمرہ عدالت میں موجود ان لوگوں کو وکلا اور صحافیوں پر ترجیح کیوں دی گئی۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل اور نعیم حیدر پنجوتھا میں تلخ کلامی ہوئی جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے ریمارکس دیے کہ اس بڑی جنگ میں آپ وکلا اپنا ڈیکورم کیوں خراب کر رہے ہیں؟

عدالت نے درخواست گزار وکیل فیصل چوہدری اور نعیم پنجوتھا کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی۔