سینیٹ اجلاس: اپوزیشن کا احتجاج، اسلام آباد میں پُرامن اجتماع و امن عامہ بل کثرت رائے سے منظور
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شدید احتجاج کے دوران اسلام آباد میں پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس کے دوران رپورٹ چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ فیصل سلیم نے پیش کی، سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بل کو فوری منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔
سینیٹر علی ظفر نے بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں ایک جلسہ ہونے جارہا ہے، اسے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس پر سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم اس چیز کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ جہاں چاہیں جلسہ کریں، ہم تو انہیں سہولت دے رہے ہیں، ہمارا اور کوئی مقصد نہیں، ہم چاہتے ہیں لاکھوں لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں۔
اس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ یہ رولز اس ہاؤس نے بنائے ہیں، جب سے یہ ہاؤس معرض وجود میں آیا تو رولز ریلیکس ہوتے ہیں۔
بعد ازاں قائد حزب اختلاف سینیٹ شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی اتھارٹی کا غلط استعمال کررہے ہیں، یہ قانون آپ کے گلے پڑے گا، جب کرکٹ ٹیمیں آتی ہیں، تب بھی شہر کو محصور کردیا جاتا ہے، اس بل پر آپ کی بدنیتی واضح ہوچکی ہے، حکومت بھی جلسہ کر لے، میں انہیں چیلنج کرتا ہوں، یہ قانون محض پی ٹی آئی کے جلسہ کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے، لا منسٹر دن دہاڑے کیسے ہماری آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ منی بل یا ججز کی تعداد میں اضافے کا بل نجی ممبر نہیں پیش کر سکتا، کیسے ایوان کو استعمال کرتے ہوئے ججز کی تعداد میں اضافے کا نجی بل پیش ہوا، ججز کی تعداد میں اضافے کا بل صرف حکومت پیش کر سکتی ہے، انہیں ججز کی تعداد میں اضافہ کے بل پر قومی اسمبلی میں شرمندگی کا سامنا ہوا، سینیٹ سے یہ نجی بل پیش کرنا درست نہیں تھا۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ جس دن یہ بل آیا تھا، اس دن بھی ہاؤس پر بحث ہوئی تھی۔
اسی کے ساتھ سینیٹر عرفان صدیقی کی طرف سے پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کی تحریک پیش کردی گئی، جو ایوان نے کثرتِ رائے سے منظور کر لی۔
بعد ازاں اسلام آباد میں امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔
بل کے اہم نکات
بل میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی کا کوآرڈینیٹر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو 7 روز قبل مجلس کی تحریری درخواست دے گا۔ اسمبلی/مجلس کی جائز وجوہات نہ دینے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت نہیں دے گا، جلسے کی اجازت نہ دینے کی تحریری وجوہات دے گا، جلسے کی نامزد مختص کردہ جگہ یا کوئی اور حکومت کا مختص کردہ علاقہ ہوگا۔
مزید بتایا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت دینے سے قبل امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لے گا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سیکویرٹی کلیئرنس لے گا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مختص علاقے کے علاوہ کہیں جلسے کی اجازت نہیں دے گا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے اجازت نامہ کی قومی سیکیورٹی رسک، تشدد کے خدشہ، پر ترمیم کر سکتا ہے، حکومت اسلام آباد کے کسی مخصوص علاقے کو ریڈ زون یا ہائی سیکورٹی زون قرار دے سکتی ہے، جہاں اسمبلی کی ممانعت ہو گی۔
مزید بتایا گیا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس اسمبلی پر پابندی کا اختیار ہو گا اگر وہ پبلک سیفٹی یا قومی سیکیورٹی کے لیے رسک ہو، امن و امان کی خرابی کے رسک کی مصدقہ رپورٹ ہو، یا روز مرہ کی سرگرمیاں متاثر کرے، اسمبلی پر پابندی کی وجوہات تحریری طور پر دی جائیں گی۔
بل کے مطابق متاثرہ شخص پندرہ روز کے اندر اپیل کر سکتا ہے، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو اسمبلی کو منتشر کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے، اگر وہ جلسہ امن و امان کو خراب کرے، اگر جلسہ منتشر نہیں کیا جاتا تو پولیس افسر اسے طاقت کے ذریعے منتشر کر سکتا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی جلسے کے ارکان کو گرفتار اور حراست میں لیا جا سکتا ہے، غیر قانونی اسمبلی کے رکن کو 3 سال تک سزا اور جرمانہ ہوگا، اس قانون کے تحت عدالت سے تین سال سزا پانے والے شخص کو دوبارہ جرم دوہرانے پر 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قبل ازیں سینیٹ اجلاس کے آغاز پر سینیٹر مسرور احسن نے دو روز قبل سینیٹ قائمہ کمیٹی میں سیف اللہ ابڑو اور شہادت اعوان کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی معزز ممبر کی دوسرا ممبر بے عزتی کرے، اور اخبار کی زینت بنے، جس معزز رکن نے یہ کیا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔
اس پر سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی رکن کی ہاؤس میں کھڑے ہوکر مذمت کرنی چاہیے، وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات پر چشم پوشی نہ کریں، ورنہ معاملات دور تک جائیں گے، میں بطور رکن ایوان اس کی بھر پور مذمت کرتا ہوں۔
اس پر سینیٹر تحریک انصاف کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اس معاملے کی تحقیقات کروائیں، اس ہاؤس کی کمیٹی بنائیں جو اس معاملے کی تحقیقات کرے، کمیٹی بنا کر تحقیقات کرائیں، اگر میں غلط ثابت ہوا، تو جا کر معافی مانگوں گا، اگر غلطی ثابت نہ ہوئی تو جن ارکان نے ہاؤس میں مذمت کی، وہ پھر معافی مانگیں گے۔
اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ اس ہاؤس کا بڑا احترام ہے، قومی اسمبلی کے رکن یہاں بیٹھ کر رہنمائی لیتے تھے، اگر ہم معاملات کو بڑھائیں گے، تو آگے بڑھتے جائیں گے۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کی سینیٹر قرۃ العین مری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے معزز رکن سے جو ہوا، اس کے بعد پیپلز پارٹی کا مؤقف نہ سننا مناسب نہیں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ میں دو واقعات قومی اسمبلی میں بھی ہوئے، ہم نئی چیزیں کیوں کریں، یہ معاملہ چیئرمین سینیٹ کو بھجوا دیں، جو رول کہتا ہے۔
شہادت اعوان نے سیف اللہ ابڑو کو ٹاؤٹ قرار دے دیا
بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بکواس میرے لیے کی گئی ہے، آپ وہاں کمیٹی میں موجود تھے، ایک شخص جسے اپنے کردار کا پتا ہے، یہ بدبودار شخص جیک آباد، لاڑکانہ میں بچے ڈھونڈتا ہے، یہ بدتمیز آدمی ہے، میری بے عزتی ہوئی ہے، یہ آدمی ایجنٹ اور ٹاؤٹ ہے۔
اس موقع پر سینیٹر شہادت اعوان اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔
بعد ازاں چیئرمین نے سینیٹ اجلاس میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا تو اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپ نے چیمبر میں ہمیں بلایا تھا، لیڈر آف اپوزیشن اور ہم نے کوشش کی ہے دونوں بھائیوں کو گلے ملوانا چاہیے۔
سینیٹر شہادت اعوان اور سینیٹر سیف اللہ ابڑو میں صلح کرادی گئی، دونوں ممبران ایک دوسرے سے گلے ملے۔
اس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ تمام ممبران کو بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہیے، تمام الفاظ کو حذف کرتے ہیں۔
سینیٹ نے اپاسٹل بل 2024 بھی منظور کر لیا، بل قومی اسمبلی سے منظور ہو کر آیا، بل اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔
پی ٹی آئی نے محسن نقوی کے استعفے کا مطالبہ کردیا
بعد ازاں بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ محسن نقوی نے جب سے کرکٹ بورڈ کو سنبھالا ہے، کرکٹ تباہ ہوگئی ہے، شاید حکومت بھی چاہتی کہ محسن نقوی جائیں کیوں کہ یہ حکومت کا بندہ نہیں، پی ٹی آئی محسن نقوی سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتی ہے، محسن نقوی بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔
اس پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کرکٹ کا سیاست سے تعلق نہیں ہے، کرکٹ تنزلی کے مسئلہ پر علی ظفر صاحب آگے آئیں اور کوئی تحریک لے آئیں۔
نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور
بعد ازاں سینیٹ نے نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور کرلیا، جس کے تحت نجکاری اپیلٹ ٹریبونل کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
وفاقی وزیر عبدالعلیم خان کے پیش کردہ بل کے متن کے مطابق نجکاری کے معاملات ہائی کورٹ کے بجائے نجکاری اپیلٹ ٹریبونل کو منتقل ہوں گے،اپیلٹ ٹریبونل ایکٹ کے تحت سول اور کرمنل معاملات پر سماعت کرکے فیصلہ کرے گا، نجکاری اپیلٹ ٹریبونل کے پاس وہی اختیارات ہوں گے جو سول یا کرمنل کورٹ کے پاس ہوتے ہیں۔
نجکاری اپیلٹ ٹربیونل کسی بھی شخص کو طلب کر سکے گا اور اس سے حلف پر جانچے کرے گا، نجکاری اپیلٹ ٹریبونل دستاویزات، مواد لے سکے گا، حلف نامے پر شواہد لے گا، گواہوں اور دستاویزات کا معائنہ کرے گا۔
نجکاری اپیلٹ ٹریبونل میں ایک چیئرپرسن، ایک ٹیکنیکل اور ایک جوڈیشل رکن ہو گا، دفتر کی مدت تین سال ہوگی، حکومت 30 دن کے نوٹس پر انہیں مسکنڈکٹ پر ہٹا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج نجکاری اپیلٹ ٹریبونل کا چیئرپرسن ہوگا، اپیلٹ ٹریبونل سے متاثر شخص 60 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل کر سکے گا، نجکاری سے متعلق معاملات، نجکاری کے عمل یا پروگرام سے متعلق کیسز نجکاری اپیل کمیشن کو منتقل کیے جائیں گے،
نجکاری اپیلٹ ٹریبونل کے پاس تمام فیصلے کرنے کے خصوصی اختیار ہوں گے، ٹریبونل کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے، فیصلے کے خلاف اپیل 60 دن میں سپریم کورٹ میں دائر ہوگی۔
بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ ترامیم سے نجکاری تنازعات کے بروقت حل کو یقینی بنایا جا سکے گا، اس سے نجکاری لین دین کے معاملات تیزی سے نمٹائے جاسکیں گے۔