پاکستان

فضل الرحمٰن کا چیف جسٹس کو خط، سودی نظام کے خلاف اپیلیں جلد نمٹانے کی اپیل

وفاقی شرعی عدالت نے مالیاتی نظام کو 5 سال میں سود سے پاک کرنے کا حکم دیا تھا، اسٹیٹ بینک نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔

جمعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر وفاقی شرعی عدالت کے سودی نظام ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جلد نمٹانے کی اپیل کی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق جے یو آئی ف کے سربراہ نے چیف جسٹس کو خط میں لکھا کہ وفاقی شرعی عدالت نےگزشتہ سال فیصلے میں مالیاتی نظام کو 5 سال میں سود سے پاک کرنے کا حکم دیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے خط میں لکھا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف بینکوں کی اپیلوں کو جلد نمٹایا جائے تاکہ حکومت سود سے پاک مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے اقدامات اٹھائے۔

خط میں مزید کہا کہ ختم نبوت پر آپ کا مختصر فیصلہ لائق تحسین ہے، تفصیلی فیصلہ جلد جاری کرنے سے مسلمانان پاکستان پوری طرح مطمئن ہوجائیں گے۔

خیال رہے کہ 28 اپریل 2022 کو وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر 19 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر شرعی قرار دیا تھا اور حکومت کو ہدایت کی تھی کہ تمام قرض سود سے پاک نظام کے تحت لیے جائیں اور دسمبر 2027 تک معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔

بعد ازاںِ 26 جون 2022 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کے ملک میں رائج سودی نظام کو غیر شرعی قرار دیے جانے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے سلمان اکرم راجا نے اپیل دائر کی تھی جبکہ چار نجی بینکوں نے بھی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

اپیل میں وزارت خزانہ، وزارت قانون، چیئرمین بینکنگ کونسل اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا، اپیل میں کہا گیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مدنظر نہیں رکھا۔

اس حوالے سے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ حکومت نے اسلامی بینکنگ نظام کو آگے بڑھانے کے لیے سود کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی درخواستیں سپریم کورٹ سے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

مقدمے کا پس منظر

وفاقی شرعی عدالت میں 30 جون 1990 کو سودی نظام کے خاتمے سے متعلق پہلی درخواست دائر کی گئی تھی، جس کے بعد 1991 میں ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں شرعی عدالت کا تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ سنایا تھا تاہم اس فیصلے کو وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور حکومت کو جون 2000 تک فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا، تاہم بعد ازاں اُس وقت کی جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر بھی نظرثانی اپیل دائر کردی گئی تھی۔ جس کے بعد 24 جون 2002 کو شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کردیا گیا اور ربا کی تشریح کے لیے مقدمہ واپس شرعی عدالت بجھوا دیا گیا تھا۔

وفاقی شرعی عدالت کے 9 چیف جسٹس صاحبان مدت پوری کر کے گھر چلے گئے جبکہ 2002 سے 2013 تک مقدمے کی سماعت نہ ہو سکی۔

تقریباً 19 سال سے شریعت کورٹ میں سودی نظام کیخلاف کیس زیر التوا ہے، اس دوران کئی سماعتیں ہوئیں، متعدد درخواست گزار اور عدالتی معاونین انتقال کر گئے۔

2013 سے مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور آج 19سال بعد مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔