پاکستان

’وی پی این استعمال کرنے والے صارفین انٹرنیٹ سروسز میں تعطل سے محفوظ رہے‘

فلٹرنگ یا بلاکنگ زیادہ ہو، تو وہ لیٹنسی کو بڑھا دیتی ہے، اور انٹرنیٹ کی رفتار کو کم کر دیتی ہے، بی 4 اے کے ہیڈ شہزاد احمد

ڈیجیٹل رائٹس گروپس کی جانب سے تکنیکی تجزیے میں بتایا گیا ہے گزشتہ ماہ ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورکس (وی پی این) استعمال کرنے والے پاکستانی صارفین کی انٹرنیٹ ڈاؤنلوڈ اسپیڈ بہتر تھی اور دشواری کا سامنا بھی نہیں تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حالیہ رپورٹ میں بائٹس برائے بال (بی 4 اے) نے بتایا کہ پاکستان میں مختلف انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (آئی ایس پیز) کے درمیان کی گئی نیٹ ورک ہیلتھ اسکین نے وی پی این اور غیر وی پی این کنکشنز کے درمیان ”اہم“ فرق کو ظاہر کیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بہتری زیادہ ڈاؤنلوڈ کی رفتار اور کم ری ٹرانسمیشن کی شرح میں واضح ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ وی پی این ممکنہ طور پر آئی ایس پی کی طرف سے عائد کی گئی تھروٹلنگ یا ڈیپ پیکٹ انسپیکشن (ڈی پی آئی) اقدامات کو بائی پاس کر سکتے ہیں، جسے انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی وجوہات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

رواں سال جولائی میں شروع ہونے والی انٹرنیٹ دشواری کے بعد سے صارفین اس بات کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ اس کی وجوہات کیا تھیں، کئی ہفتوں کے شو شرابے کے بعد متعلقہ وزیر نے ردعمل دیا، جنہوں نے انٹرنیٹ صارفین کی طرف سے وی پی این کے زیادہ استعمال کرنے کو مسئلے کی وجہ قرار دیا ہے۔

28 اگست کو پریس کانفرنس کے دوران وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے انٹرنیٹ بندش میں ریاست کے ملوث ہونے کی تردید کی تھی، جبکہ دعویٰ بھی کیا کہ مخصوص ایپلی کیشنز کے استعمال کے لیے صارفین کی بڑی تعداد وی پی این کی طرف جار ہی ہے جس سے بروڈ بینڈ اسپیڈ کم ہوئی ہے۔

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ نے ڈان کے تبصرہ کرنے کی درخواست پر جواب نہیں دیا۔

ڈان سے بات چیت میں بی 4 اے کے ہیڈ شہزاد احمد جو کہ اس رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ہیں، بتاتے ہیں کہ تجزیہ چار بڑے انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر (آئی ایس پی) کے صارفین کے بیس پر کیا ہے۔

ڈاؤنلوڈ اور اپلوڈ کی رفتار میں فرق، تاخیر اور فکسڈ اور موبائل بروڈ بینڈ پر ری ٹرانسمیشن کی شرح کا جائزہ لینے کے لیے وی پی این اور بغیر وی پی این کے مصنفین نےدو اوپن سورس ٹولز استعمال کیے، جن میں ایم لیب نیٹ ورک ڈائگناسٹک ٹول (این ڈی ٹی) اور میژرمنٹ سوئس آرمی نائف (ایم ایس اے کے) شامل ہیں۔

ری ٹرانسمیشن کا مطلب یہ ہے کہ معلومات کے پیکٹس کو دوبارہ بھیجا جاتا ہے، جب وہ ترسیل کے دوران گم ہوجاتے ہیں، زیادہ ری ٹرانسمیشن کی شرح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نیٹ ورک میں اضافی مداخلت کی جا رہی ہے، جیسے کہ معائنہ، تھروٹلنگ، یا بلاکنگ، اسی طرح زیادہ تاخیر (لیٹنسی) کی شرح کا مطلب ہے کہ صارفین ویب سائٹ کا لنک انٹرنیٹ براؤزر پر لکھیں، یعنی یو آر ایل درج کرنے سے اور نتیجتا ویب سائٹ کے لوڈ ہونے تک، ان دونوں کے درمیان تاخیر زیادہ ہو، اسے لیٹنسی کی شرح کہتے ہیں۔

شہزاد احمد نے مزید بتایا کہ جہاں فلٹرنگ یا بلاکنگ زیادہ ہو، وہ لیٹنسی کو بڑھا دیتی ہے، اور انٹرنیٹ کی رفتار کو کم کر دیتی ہے۔

وی پی این کے ساتھ اور بغیر انٹرنیٹ

نیٹ ورک ڈائگناسکٹ ٹول (این ڈی ٹی) کے ٹیسٹ کے دوران وی پی این کے بغیر فکسڈ بروڈ بینڈ پر ڈاؤنلوڈ کی رفتار 20.42 میگابائٹس فی سیکنڈ تھی جبکہ میژرمنٹ سوئس آرمی نائف (ایم ایس اے کے) پر ڈاؤنلوڈ کی رفتار 0.48 میگا بائٹس فی سیکنڈ رہی، تاہم وی پی این کے بعد یہی ڈاؤنلوڈ کی رفتار بڑھ کر این ڈی ٹی ٹیسٹ میں 56.95 میگا بائٹس فی سیکنڈ اور ایم ایس اے کے ٹیسٹ میں 27.31 میگا بائٹس فی سیکنڈ پر چلی گئی۔

وی پی این کے بغیر موبائل بروڈ بینڈ پر این ڈی ٹی ٹیسٹ میں ڈاؤنلوڈ کی رفتار 1.94 میگا بائٹس فی سیکنڈ تھی جبکہ ایم ایس اے کے ٹیسٹ پر ڈاؤنلوڈ کی رفتار 0.33 میگابائٹس فی سیکنڈ رہی، جو کہ وی پی این کے بعد بڑھ کر این ڈی ٹی ٹیسٹ میں 8.98 میگا بائٹس فی سیکنڈ اور 10.2 میگا بائٹس فی سیکنڈ تک جا پہنچی۔

شہزاد احمد نے ڈان کو مزید بتایا کہ ہم وزیر کے وی پی این کے زیادہ استعمال سے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کے بیان کا جائزہ لینا چاہتے تھے، تاہم جب لوگوں نے مقامی انٹرنیٹ سروس پرووائڈرز کو بائی پاس کرکے وی پی این سے جُڑنا شروع کیا، تو خرابیوں کو دور کرلیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی رفتار میں بہتری آئی۔

وی پی این کے بغیر فکسڈ بروڈبینڈ پر این ڈی ٹی ٹیسٹ کے دوران لیٹنسی 203 ملی سیکنڈز اور ایم ایس اے کے ٹیسٹ کے دوران 196 ملی سیکنڈز تھی۔