پاکستان

پشاور: کزن سے زیادتی کرنے کے جرم میں ملزم کو عمر قید کی سزا سنادی گئی

ملزم پر ایک گھناؤنے جرم کا الزام لگایا گیا ہے اس لیے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں، وکیل شکایت کنندہ

پشاور میں بچوں کے تحفظ کی عدالت نے ایک شخص کو اپنی نو عمر کزن کے ساتھ جنسی زیادتی کا مجرم قرار دیتے ہوئے اسے عمر قید کے ساتھ 5 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنادی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج لبنیٰ زمان نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ نے مردان ضلع کے رہائشی ملزم عثمان کے خلاف مقدمہ ثابت کر دیا اور ریکارڈ پر موجود شواہد نے بھی اسے جرم سے منسلک کردیا ہے۔

ملزم پر 21 فروری 2023 کو مردان کے شیخ ملتون تھانے میں متاثرہ لڑکی کی جانب سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (ریپ) کے تحت درج ایف آئی آر میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ وہ ملزم کے گھر کے قریب واقع اپنے ماموں کے گھر جا رہی تھیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپنے گھر کے باہر موجود ملزم شکایت کنندہ کو زبردستی اندر لے گیا اور اس سے زیادتی کی۔

ایڈووکیٹ ولی خان متاثرہ کی طرف سے پیش ہوئے اور بتایا کہ واقعے کے وقت متاثرہ لڑکی کی عمر 17 سال کے لگ بھگ تھی، انہوں نے مزید کہا کہ واقعہ کے بعد ملزم فرار ہو گیا اور بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے ملزمان کے خلاف تمام مطلوبہ شواہد اکٹھے کر لیے ہیں، متاثرہ لرکی کے طبی معائنے سے بھی ثابت ہوا کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں سب سے اہم نکتہ ملزم کی شناخت ہے اور چونکہ وہ متاثرہ کو جانتا تھا، اس لیے شناختی پریڈ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں ملزم پر براہ راست فرد جرم عائد کی گئی اور چونکہ اس پر ایک گھناؤنے جرم کا الزام لگایا گیا ہے اس لیے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں۔

وکیل نے دلیل دی کہ اپنے بیان میں ملزم نے اعتراف کیا کہ شکایت کنندہ اس کی رشتہ دار ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ملزم شکایت کنندہ کی جانب سے کوئی ایسی وجہ ثابت نہیں کر سکا جس کے باعث متاثرہ لڑکی اسے جھوٹے کیس میں پھنسائے۔

ملزم کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل پر جرم کا جھوٹا الزام لگایا گیا ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ شکایت کنندہ بچی نہیں تھی اور واقعہ کے وقت اس کی عمر 20 سال تھی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا معاملہ نہیں ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر 15 فروری 2023 کو پیش آیا جب کہ ایف آئی آر چھ دن کی تاخیر کے بعد درج کی گئی، جس سے ثابت ہوا کہ مقدمہ غور و فکر کے بعد درج کیا گیا۔

ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کے بارے میں، شکایت کنندہ کے وکیل نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں متاثرہ خاندان اکثر ایسے معاملات سے جڑے بدنما داغ کی وجہ سے جلد از جلد تھانے جانے سے گریز کرتے ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ جب ملزم کو سزا سنانے کے لیے دیگر شواہد کافی ہیں تو ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔